Sangi سهيل سانگي

سهيل سانگي سنڌي ڪالم ۽ آرٽيڪل About Current political, economic media and social development issues

Wednesday, March 10, 2021

پیپلزپارٹی مائنس آصف زرداری ؟

 سابق صدر آصف علی زرداری کی سیاسی تنہائی اور مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔کہاں وزیراعظم لانے کے دعوا کر رہے تھے لیکن ملک میں انتخابی ماحول بنتے ہی غیر فعال ہوگئے۔آصف زرداری کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اور پاناما کی طرز پر جے آئی ٹی بنائی جارہی ہے۔سپریم کورٹ نے سابق صدرآصف زرداری،ان کی بہن فریال تالپورکو بارہ جولائی کو عدالت میں طلب کر لیا ہے۔ آج کے سیاسی منظر نماے میں پیپلزپارٹی تنہا کھڑی ہے۔ ملکی سطح پر تین بڑے دھارے نواز لیگ، عمران خان اور ،مذہبی جماعتوں کے ہیں وہ کسی بھی دھارے کا حصہ نہیں۔ کبھی آصف علی زرداری نے علامہ قادری کے زریعے عمران خان سے جڑنے کی کوشش کی تھی لیکن کپتان خان نے اسٹیج شیئر کرنے سے انکار کردیا تھا۔ حالیہ پیش رفت کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو سیاست سے مائنس کرنے کی کوششوں میں تیزی آگئی۔نتخابات کے شیڈول جاری ہونے سے قبل پنجاب اور خیبرپختونخوا کے طوفانی دورے کرکے جوڑ توڑ کررہے تھے۔ اپنی پارٹی کا وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ لانے کی باتیں کرنے والے آصف زرداری ملک میں انتخابی ماحول بنتے ہی غیر فعال ہوگئے ہیں۔ میدان میں بلاول بھٹو زرداری اکیلے نظر آرہے ہیں۔ 

ذرائع کے مطابق ملکی سیاسی منظر نامے اور انتخابی میدان میں اہم ترین تبدیلیوں اور بڑے فیصلوں کا وقت ہے۔ پاکستانی سیاست سے ایک اور مائنس ون کی کوششوں کو تقویت دی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی مائنس زرداری کی صورت پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاسی ہمسفر بننے کا عندیہ دیدیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کی سیاسی تنہائی اورپیپلزپارٹی کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔اب وہ پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں،عوامی اجتماعات اور خود اپنے حلقہ انتخاب سے بھی دور ہیں۔آصف علی زرداری خود این ای213 نوابشاہ کی نشست پر امیدوار ہیں اور تاحال اپنے حلقہ انتخاب میں نہیں گئے ہیں۔ انکی ہمشیرہ اور اسی علاقے سے صوبائی نشست پر امیدوار ڈاکٹر عذرا فضل بھی محدود پیمانے پر انتخابی مہم چلارہی ہیں۔آصف علی زرداری نے اپنی سرگرمیوں کو محدود کرلیا ہے اور صرف ٹی وی پروگرامز تک محدود ہیں۔
عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو پنجاب سے کوئی ہیوی ویٹ امیدوار نہیں مل سکے ہیں اور پیپلزپارٹی کا سیاسی کردار محدود ہوتا دکھائی دے رہاہے۔پیپلزپارٹی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری حالیہ دنوں میں ذہنی دباو کا شکار ہیں اور سیاسی معاملات نتیجہ خیز انداز میں نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں جبکہ انکے دائمی امراض کی تکلیف بھی بڑھ رہی ہے ۔
بینکر حسین لوائی کی گرفتاری ایک اہم پیش رفت مانی جاتی ہے۔ اس کیس کو نتیجہ خیز انجام تک لے جانے کے جتن ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس ازخود نوٹس کی سماعت کی۔سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے آصف زرداری اور سندھ میں ’’ آئرن لیڈی ‘‘سمجھی جانے والی ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت بیس افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ سات لوگوں کے نام پر قائم انتیس اکاؤنٹس سے 35 ارب سے زائد کی ٹرانزکشن ہوئیں۔سپریم کورٹ نے سابق صدرآصف زرداری،ان کی بہن فریال تالپور،طارق سلطان،ارم عقیل، محمد اشرف،محمد اقبال آرائیں اوردیگر افراد کو طلبی کے نوٹس جاری کردیئے ہیں۔ 
ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ طارق سلطان کے نام پر 5 اور ارم عقیل کے نام پر دو اکاؤنٹس ہیں۔ محمد اشرف کے نام پر ایک ذاتی اور 4 لاجسٹک ٹریڈ کے اکاؤنٹس ہیں، محمد عمیر بیرون ملک ہیں اور ان کا ایک ذاتی اور 6 اکاؤنٹس حمیرا اسپورٹس کے نام پر ہیں، عدنان جاوید کے 3 اکاؤنٹس لکی انٹرنیشنل کے نام پر ہیں، قاسم علی کے تین اکاؤنٹس رائل انٹرنیشنل کے نام سے ہیں۔ عدالت نے اسٹیٹ بنک کو نجی بینک کی جمع کرائی گئی سات ارب روپے کی ایکوٹی روکنے کا حکم دے دیا۔
اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے چیئرمین حسین لوائی اور نجی بینک کے نائب صدر طلحہ رضا جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزمان نے 7 ارب کی منی لانڈرنگ کی،4 ارب ریکور کر لئے ہیں۔ایف آئی اے کے مطابق سمٹ اور سندھ بینک سمیت تین بینکوں میں 29 جعلی اکاؤنٹس کھولے گئے، یہ اکاؤنٹس انور مجید کے اومنی گروپ کے ملازمین استعمال کرتے تھے۔ صرف سمٹ بینک کے 16 اکاؤنٹس کے ذریعے 20? ارب کا لین دین ہوا۔
اکاؤنٹس میں جمع کرائے گئے پیسوں کے بارے میں ایف آئی اے ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان اکاؤنٹس کو پروجیکٹس سے ملنے والے کک بیکس لینے کیلئے استعمال کیا گیا۔ 
یہ تمام ملبہ زرداری پر گرنے والا ہے۔ لگتا ہے کہ سابق صدر آصف زراری اور ان کی ہمشیرہ کے گرد بھی گھیرا تنگ ہونے جارہا ہے۔
آصف زرداری نے معاملے کو بھانپ لیا تھا۔وہ اکتوبر سے نواز لیگ کے خلاف اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دیتے رہے۔ عمران خان اورعلامہ ہ قادری سے بنانے کی کوشش کی۔ بلوچستان میں زہری کو حکومت توڑنے، عبدالقدوس بزنجو کی حکومت لانے اور سینیٹ اور اس کے چیئرمین کے انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے رہے۔انہیں بانور کرایا گیا کہ عمران خان بطور وزیراعظم اسٹبلشمنٹ کے پسندیدہ نہیں۔ لہٰذا ایک بار پھرپیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ اس فارمولا کے حامیوں نے آصف زرداری کو ایوان صدر پہنچانے کا آئیڈیا مارکیٹ میں بیچنا شروع کردیا۔ بعد میں معاملات بگڑنے لگے تو آصف زرداری آئندہ حکومت اور سیٹ اپ میں اپنے سرکردہ رول سے دستبردار ہو گئے۔ اور کہا کہ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں بھی بیٹھنے کے لئے تیار ہے۔یعنی پی پی پی کو آئندہ سیٹ اپ میں گیم سے آؤٹ نہ کیا جائے۔ 
یہ خیال مسلسل پختہ کیا گیا کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں مبینہ طور پر بڑی کرپشن ہوئی ہے اور یہ حکومتیں عوام کو ڈلیور نہیں کر سکی ۔ لہٰذا اب ان سے نجات کے لیے عمران خان کو اقتدار میں لانا ضروری ہے۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ براہ راست مارشل لاء لگادیا جاتا۔ لیکن ایسے حالات نہیں۔ ادوسرا یہ تھا کہ ’’آئین میں رھتے ہوئے ‘‘ اقدامات کئے جائیں۔ لہٰذا عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے جو بھی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔یعنی عوام پر انحصار کے بجائے حربوں اور چند شخصیات پر انحصار کیا جارہا ہے۔کچھ لوگ اپنے تئیں طے کر لیتی ہیں کہ ملک کے مفاد میں کیا ہے؟ کیا نہیں؟ اور پھر اس پانے طے کردہ ملکی مفاد کے مطابق پورے نظام کو الٹ پلٹ دیتے ہیں۔ 
اس فارمولے کا ایک حصہ مشرف فارمولے کی نقل ہے، جس میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ دونوں آؤٹ تھیں۔ فرق یہ ہے کہ تب آئین معطل کردیا گیا تھا۔ براہ راست فوج حکومت میں آگئی تھی۔ مشرف نے بھی ان روایتی سیاست دانوں سے نجات حاصل کر نے کی ٹھانی تھی۔اس طرح کے براہ راست تجربے ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف کر چکے ہیں۔جبکہ چھوٹے موٹے تجربے بعض مواقع پر کئے جاچکے ہیں۔ لیکن کبھی بھی ان کا اچھا نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ 
نواز شریف نے’’ خلائی مخلوق‘‘ پر سیاسی انجنیئرنگ کا الزام لگایا تھا کہ ان کے ساتھیوں پر پارٹی چھوڑنے اور پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا تھاکہ یہ کیسی جمہوریت ہوگی، جب لوگ آزادانہ طور پر فیصلے نہ کر سکیں۔ اب یہی بات پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک مخصوص جماعت کو کامیاب کرانے کے لئے لوگوں پر پیپلز پارٹی کو چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو بھی اب کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام پر اعتماد کیاجائے اور انہیں فیصلہ کرنے دیا جائے۔ دونوں جماعتوں کو ایک جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ یعنی دونوں جماعتوں کو آئندہ سیٹ اپ میں آؤٹ کیا جارہا ہے۔تعجب ہے کہ یہ سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی دونوں جماعتوں کی قیادت مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
پیپلزپارٹی کے ایک اور ذریعہ کا کہنا ہے کہ مائنس ون کا مطالبہ زور پکڑتا جارہاہے اور امکان ہے کہ پیپلزپارٹی کو مائنس ون کا دکھ جھیلنا پڑے۔ ملک میں ایک نئے منظر نامے رونما ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ جس کو جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’ نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم تینوں ناکام ہو چکی ہیں‘‘، ایم کیو ایم مائنس ون ہونے کے بعد گوپوں میں تقسیم ہو چکی، عدلیہ کے دو فیصلوں کے بعد نواز لیگ بھی مائنس ون ہو گئی۔ پیپلزپارٹی باقی تھی، اب اس کے خلاف بھی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔
خیال ہے کہ پیپلزپارٹی سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مائنس کیا جارہا ہے۔اگر ایسا ہے تو پیپلزپارٹی کی عوام میں قبولیت بڑھ سکتی ہے۔ ایک مرتبہ اس قبولیت کا الیکشن میں فائدہ مل گیا، تو پھر پارٹی کی قیادت واپس بڑوں کے پاس چلی جائے گی۔ لیکن اسٹبلشمنٹ پیپلزپارٹی کو ایسا کوئی فائدہ دینا نہیں چاہے گی۔ 
حیران کن بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی سندھ میں اپنے امیدواروں کو دھمکیاں ملنے کا شکوہ کرچکے ہیں اورآصف زرداری بھی اپنے روایتی انداز سیاست میں کھل کر کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ادھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اپنے دورہ کراچی میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ مائنس زرداری کی صورت پیپلزپارٹی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاسکتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلوں کی منصوبہ بندی ہورہی ہے پیپلزپارٹی کے چند سینئر رہنماؤں کے بقول خطرے کی گھنٹی کی اواز سنائی دے رہی ہے۔ 
2018

Labels: , ,

Sunday, December 27, 2020

PPP-Functional League closeness


 

Labels: , ,

Friday, November 29, 2019

بلاول جا دڙڪا ۽ مهيني جي مهلت ڪهڙو اثر ڏيکاريندي؟


بلاول جا دڙڪا ۽ مهيني جي مهلت ڪهڙو اثر ڏيکاريندي؟

پيپلز پارٽي جو چيئرمين بلاول ڀٽو زرداري سنڌ جي وزيرن جي ڪارڪردگي تي خوش ناهي. وزيرن سان ٿيل گڏجاڻي ۾ ميڊيا جي رپورٽن موجب ڪجهه وزيرن کي دڙڪا به مليا. مجموعي طور اهو تاثر جڙي ٿو ته پارٽي چيئرمين وزيرن جي ڪارڪردگي تي ڄڻ عدم اعتماد جو اظهار ڪيو آهي. ان بعد اهي به ڳالهيون هُليون ته ڪابينا ۾ ردو بدل ڪئي پئي وڃي. بهرحال ڪجهه مددگار کنيا ويا آهن، پر ڪابينا ۾ ردو بدل جي وڏي وزير سيد مراد علي شاهه ترديد ڪئي آهي. بلاول طرفان سنڌ حڪومت جي ڪارڪردگي جو جائزو وٺڻ سٺي ڳالهه ليکي ويندي، ڇاڪاڻ جو سڄي ملڪ ۾ سنڌ واحد صوبو آهي جتي پيپلزپارٽي اڃان پير کوڙي بيٺي آهي ۽ ان جي صوبائي حڪومت به آهي، سنڌ حڪومت جي ڪارڪردگي جي بنياد تي پارٽي ٻين صوبن ۾ وري ڪا جڳهه ڳولي سگهي ٿي، شرط اهو آهي ته سنڌ ۾ ان جي طرز حڪومت ۽ ڪارڪردگي مثالي بڻجي.
زميني حقيقتون اهي ئي آهن جن جو ڪنهن حد تائين ذڪر بلاول ڀٽو به ڄاڻايل ميٽنگ ۾ ڪيو آهي، مطلب ته ڪنهن جو به ڪم نٿو ٿئي، ايتري قدر جو ايم پي ايز جا به ڪم نٿا ٿين. سوال اهو آهي ته ڪم مان ڇا مراد آهي؟ ڪا نوڪري؟ ڪا ترقياتي رٿا، ڪا بدلي؟ يا ان قسم جو ڪو ٻيو ڪم؟ جيڪڏهن هڪ پارٽيءَ جو سربراهه ڪم کي انهن معنائن ۾ وٺي ٿو ته اها ننڍي نظر آهي، اصل ۾ حڪمراني جو اهڙو نظام ۽ طرز رائج ٿيڻ گهرجي جنهن ۾ نوڪري هجي يا بدلي، يا وري ڪو ترقياتي منصوبو بنا ڪنهن رڪاوٽ جي ميرٽ تي ٿي وڃڻ گهرجي، ان کان هٽي ذاتي بنيادن تي ڪم ڪرائڻ ذاتي ڪم جي دائري ۾ اچي ٿو، جيڪو پراڻي اليڪٽيبل واري ٿيوري کي مضبوط ڪري ٿو ته ماڻهن جا ذاتي ڪم ڪرائبا ته اثر رسوخ به ٿيندو، هر پولنگ کٽائڻ لاءِ ڪو ماڻهو به ملي ويندو. پيپلزپارٽي پاڻ کي عوامي پارٽي سڏائي ٿي، تازي بيان ۾ بلاول به ان ڳالهه کي ورجايو آهي ته پوءِ ان کي عوامي سطح تي، سنڌ جي هر ماڻهو لاءِ سوچڻ گهرجي، هر ماڻهو کي پنهنجو ماڻهو سمجهي ڪم ڪرڻ گهرجي، جيڪڏهن ايئن نٿو ڪيو وڃي ته رڳو انهن ماڻهن جا ڪم ٿيندا جن جي وزيرن يا ايم پي ايز ۽ ايم اين ايز تائين رسائي هوندي. ان ڳالهه کي ايئن به وٺي سگهجي ٿو ته ڪو به ايم پي اي يا وزير پنهنجي تڪ جي ڪيترن ماڻهن جي اپروچ ۾ ٿي سگهي ٿو؟ هو چاهي تڏهن به هو ڪيترن ماڻهن تائين پهچي سگهي ٿو؟ ظاهر آهي ته وڏي ۾ وڏي ڪوشش جي باوجود اهو دائرو چند سئو ماڻهن کان شايد ئي وڌي سگهي، ڳالهه ذاتي ڪمن جي نه پر اجتماعي ڪمن ۽ اجتماعي ڀلائي جي آهي. آخر اهڙو سسٽم ڇو ٿو جوڙيو وڃي جنهن تحت ڪنهن به ماڻهو جو تيستائين ڪم نٿو ٿئي جيستائين هو ڀوتار جي حضور ۾ حاضر نٿو ٿئي. اهو صحيح آهي ته پارٽي کي ماڻهن سان گڏ بيهڻ گهرجي، پر پارٽي تڏهن آهي جڏهن ماڻهن جي قيادت ڪري ۽ انهن جي سوچ تبديل ڪري.
بلاول ڀٽو سنڌ جي وزيرن بابت ناخوش هجڻ جو اظهار اهڙي موقعي تي ڪيو آهي، جڏهن ملڪ ۾ شديد سياسي بحران آهي، ڪي سياسي پنڊت اِن هائوس تبديلي جي ته ٻيا وري نئين سر چونڊن جي ڳالهه پيا ڪن. نيون چونڊون کڻي نه به ٿين، پر ان ڳالهه جو قوي امڪان آهي ته مڪاني ادارن جون چونڊون ٿين، جن جي مدت هونئن قانوني طور پوري ٿي چڪي آهي پر ملڪ جي سياسي بحران سبب ڪا به ڌر ڊپ وچان مڪاني چونڊن واري پٿر کي چورڻ لاءِ تيار ناهي، پر لڳي ٿو ته ايندڙ ڪجهه مهينن ۾ اهي چونڊون ڪرائڻيون پونديون، اهڙي صورت ۾ پيپلزپارٽي هر امڪاني صورتحال کي منهن ڏيڻ جي تياري جي موڊ ۾ آهي.
پارٽي چيئرمين جون هدايتون پنهنجي جاءِ تي پر صوبائي وزيرن جو موقف به ڏاڍو اهم آهي، هو چون ٿا ته وٽن ڪي اختيار ئي ناهن. پارٽي 2008ع کان سنڌ ۾ مرڪزيت واري نظام هيٺ فيصلا ڪري ۽ حڪومت هلائي رهي آهي، رڳو اهي ڪم ڪرڻ جي اجازت آهي جنهن جي هدايت پارٽي قيادت ڏي ٿي، جيڪڏهن پنهنجي طور تي ڪو ماڻهو يا اسيمبلي ميمبر ڪا تجويز ڏي ٿو ته کيس وزير ۽ سيڪريٽري وٽان اهو ئي جواب ٿو ملي ته، “مٿان کان چَورايو.” وزيرن جو چوڻ آهي ته ڪو ننڍي ۾ ننڍو فيصلو، ايتري قدر جو سندن کاتي جي ضلعي آفيسر کي بدلي ڪرڻ به سندس وس ۾ ناهي، ڪڏهن ڪڏهن پارٽي جي حلقن مان ئي اهي ڳالهيون اينديون آهن ته ڪيترن فيصلن ۾ وڏي وزير وٽ به اختيار نه هوندا آهن، هو اعليٰ قيادت جي هدايت يا فيصلي جو منتظر هوندو آهي.
پارٽي جي اندرين ذريعن موجب سيد عبدالله شاهه آخري وڏو وزير هو جنهن وٽ اختيار به هئا ۽ پارٽي قيادت کان ڳالهه مڃائي به وٺندو هو. هتي ته نه سائين عبدالله شاهه آهي ۽ نه وري محترمه بينظيرڀٽو واري پارٽي قيادت، پارٽي وارا چون ٿا ته اصل ۾ پارٽيءَ جو تنظيمي ماڊل تبديل ٿي چڪو آهي، جنهن ۾ پارٽي ڪارڪن ۽ عهديدار جي وصف ئي تبديل ٿي وئي آهي، ان ڪري صوبي جي عهديدارن ڪابينا جي ميمبرن کان وٺي هيٺ تائين ساڳئي ماڊل تي عمل ڪيو پيو وڃي، اهو ئي سبب آهي جو وزيرن جي چونڊ به اهليت يا صلاحيت جي بدران لابين ۽ ذاتي اثر رسوخ جي بنياد تي ٿئي ٿي. اصل ۾ ان سڄي اپروچ تي نظرثاني ڪرڻ ۽ پارٽي کي اهڙي نموني منظم ڪرڻ جي ضرورت آهي جهڙي محترمه جوڙي هئي. بلاول ڀٽو جا وزيرن کي دڙڪا ۽ مهيني جي مهلت ڏسجي ته ڪهڙو ٿي اثر ڏيکاري؟ اها کڻي اثر نه به ڏيکاري تڏهن به في الحال پارٽي جا ڪارڪن ۽ آئون سوڌو ماڻهو خوش ضرور ٿي ويا ته ڪم نه ڪيائون ته کين داٻا ته مليا.

Labels: , , , ,

Saturday, October 12, 2019

هڪ دفعو وري سعوديه جي ثالثي؟

PPP, Fazal, Saudia mediation, PMLN, 2019 

سعوديه جي حڪومت ۽ اپوزيشن پارٽين ۾ ثالثي؟

نيٺ اپوزيشن جون مُک جماعتون مولانا فضل الرحمان واري نقطي تي وڃي پهتيون آهن. ان ۾ مولانا جو ڪمال پنهنجي جاءِ تي پر وڏو ڪمال حڪومت جو آهي، جنهن اپوزيشن جي ٻن وڏين جماعتن جا گس بند ڪري ڇڏيا. هن کان اڳ پيپلزپارٽي ۽ نواز ليگ ڌرڻي جي تاريخ اڳتي وٺي وڃڻ لاءِ زور ڀري رهيون هيون. ان ۾ ڪجهه نومبر مهيني جون نزاڪتون هيون ته وري ڪجهه ماڻهن ۾ حڪومت مخالف جذبا وڌڻ لاءِ گهربل وقت هو. ان سان گڏو گڏ اها ڳالهه اهم هئي ته پيپلزپارٽي ۽ نواز ليگ تحريڪ جي قيادت ۽ ان کان پوءِ ٿيندڙ اثر ۽ نتيجا پنهنجي پنهنجي هٿ ۾ رکڻ پئي گهريا.
هاڻي پيپلزپارٽي جو چيئرمين بلاول ڀٽو زرداري چوي ٿو ته اسان جا سڀ رستا بند ڪيا ويا آهن. هاڻي وٽن مولانا فضل الرحمان سان سهڪار ڪرڻ جو ئي رستو بچيو آهي. ساڳي صورتحال نواز ليگ جي آهي. نواز شريف کي چوڌري شگر ملز واري ڪيس ۾ به ملوث ڪيو ويو آهي. سندس پارٽي جو موقف اهو آهي ته پارٽي کي ديوار سان لڳايو پيو وڃي. ٻئي طرف پراڊڪشن آرڊر جاري ٿيڻ باوجود گرفتار اسيمبلي ميمبرن کي ايوان ۾ نٿو آندو وڃي. حڪومت تي دٻاءُ وجهڻ لاءِ نواز ليگ پنجاب ۾ اسٽينڊنگ ڪميٽين تان استعيفا ڏيڻ جو فيصلو پئي ڪري.
خيبرپختونخواهه جي وزيراعليٰ چيو پئي ته هو ڪنهن کي گهرن کان ٻاهر نڪرڻ ڪونه ڏيندو. ڪير هتان لنگهي ته ڏيکاري. اصل ۾ جي يو آءِ پنهنجي ڌرڻي جي شروعات سنڌ جي شهر سکر مان ڪرڻ ڏي وڃي پئي. ڪي پي ڪي جي وڏي وزير کي اها خبر هئي، ان ڪري هن شينهن ٿيڻ جي ڪوشش پئي ڪئي. حڪمت عملي اها آهي ته سنڌ ۽ پنجاب کي به سرگرم ڪجي ۽ ڌرڻي ۾ شامل ڪجي. بلاول ڀٽو سنڌ حڪومت ۽ پارٽي جي صوبائي قيادت کي هدايتون ڏيئي چڪو آهي ته جي يو آءِ کي ان ڪم ۾ هر ڪا مدد ڪئي وڃي.
مولانا فضل الرحمان جي ڌرڻي جي ڪاميابي ۽ ناڪامي بابت تجزيه نگار ۽ سياسي اڳواڻ مختلف تبصرا ڪري رهيا آهن. سندن خيال آهي ته اهو ڌرڻو حڪومت کي هٽائي نه سگهندو. ڏٺو وڃي ته ڪوبه هڪ ڌرڻو يا هڪ تحريڪ ڪنهن به حڪومت کي هٽائي نه سگهندي آهي. لڳاتار ننڍيون وڏيون تحريڪون هلنديون آهن. ان ذريعي حڪومت ايڪسپوز ٿيندي ۽ پوئتي هٽندي ويندي آهي ۽ نيٺ اهو فيصلائتو موڙ ايندو آهي جو ان کي وڃڻو پوندو آهي. ان سڄي عمل ۾ ڪابه حڪومت هجي، پنهنجا حامي ۽ اتحادي وڃائيندي رهندي آهي. ساڳئي وقت حڪمران طبقي کي به پنهنجي فيصلن تي نظرثاني ڪرڻ جو موقعو ملندو آهي ۽ هو اهو ڏسندو آهي ته ڪو ٻيو به آپشن موجود آهي. ان ڪري اهو چوڻ ته ڇاڪاڻ ته “وڏيون ڌريون” حڪومت سان گڏ بيٺل آهن، تنهن ڪري ڪجهه نه ٿيندو. ايترو صحيح ناهي. اهي ڌريون به آخر ڪيترو ساٿ ڏينديون. جڏهن اهڙيون وڏيون تحريڪون هلنديون آهن ته اهي حڪومت کي ڀلي ڪيرائي نه سگهن پر زخمي ضرور ڪري ڇڏينديون آهن. ان ڪري اهڙين تحريڪن جي پنهنجي هڪڙي اهميت آهي. ان ذريعي جيڪڏهن حڪومت زخمي يا ڪمزور ٿئي ٿي ۽ جيتري به پوئتي هٽي ٿي اها سياسي ڌرين جي ڪاميابي آهي.
هن سڄي منظر نامي ۾ هڪ نئين ڳالهه شامل ٿي آهي، سا اها ته مولانا فضل الرحمان اسلام آباد ۾ سعودي عرب جي سفير سان ملاقات ڪئي آهي. خبرون آهن ته سعودي سفارتڪار سان هڪ اعليٰ سرڪاري عهديدار به ملاقات ڪئي آهي. حڪومت جنهن ڪالهه تائين مولانا فضل الرحمان کي ڊيڄاريو پئي ۽ داٻا پئي ڏنا تنهن نيٺ ٽياڪڙي لاءِ هڪ غير ملڪ کي شامل ڪيو. اسلام آباد مان ايندڙ خبرن موجب سعودي سفير سومر ڏينهن اسلام آباد پهتو هو. چيو پيو وڃي ته هو هلندڙ هفتي دوران ئي واپس وطن ويندو. پنهنجي رپورٽ سعودي بادشاهه کي پيش ڪندو. اها ڳالهه به اهم آهي ته ٻن ٽن ڏينهن ۾ وزيراعظم عمران خان ته سعوي عرب وڃي رهيو آهي. تجزيه نگارن جو چون ٿا ته، “اهو چوڻ مناسب ٿيندو ته سعوديه مخالف سياسي جماعتن جي وچ ۾ ٽياڪڙي جو ڪردار ادا ڪري رهيو آهي.”هي ڪو پهروين ڀيرو ناهي جو سعودي عرب پاڪستان جي سياسي معاملن ۾ وچ ۾ پيو آهي. ذوالفقار علي ڀٽي جي خلاف جڏهن نون ستارن واري پي اين اي جي تحريڪ هلي هئي ته سعودي سفير ٽياڪڙي ڪري حڪومت ۽ مخالف ڌر کي ڳالهين جي ميز تي آندو هو. مشرف جي دور ۾ جڏهن نواز شريف کي جهاز جي اغوا واري ڪيس ۾ سزا آئي تڏهن به سعودي عرب سندس “ضمانت” ڪرائي ۽ کيس پاڪستان مان سعودي عرب نيو ويو جتي هو شاهي مهمان ٿي رهيو. وري جڏهن نواز شريف لنڊن مان زوري پاڪستان اچڻ جي ڪوشش ڪئي ته کيس گرفتار ڪيو ويو هڪ دفعو وري سعوديه کيس پاڪستان مان وٺي ويو. اهڙي ٽياڪڙي جا مضبوط مثال موجود آهن.
سعودي عرب جو مولانا فضل الرحمان تي ته مذهبي حوالي سان اثر آهي ئي پر نواز شريف جو به محسن رهيو آهي. ممڪن آهي ته هڪ دفعو وري سندس “ضمانت” ڪرائي وجهي، اهو ئي سبب آهي جو شهباز شريف خميس ڏينهن نواز شريف سان جيل ۾ رٿيل ملاقات نه ڪئي. کيس هن ملاقات ۾ ڌرڻي ۾ شموليت بابت پارٽي جي سفارشن کان آگاهه ڪرڻو هو ۽ آخري فيصلو نواز شريف کي ڪرڻو آهي. مولانا فضل الرحمان ۽ سعودي سفير جي ملاقات جو اڃان ڪو نتيجو نه نڪتو آهي. ان ڪري نواز ليگ به ڌرڻي ۾ شموليت بابت پنهنجي باقاعده گڏجاڻي ۾ ڀرپور شموليت جو اعلان نه ڪيو آهي.
پيپلزپارٽي جا سعودي عرب سان ڪي پرجوش ناتا نه رهيا آهن. سعودي جي ثالثي مولانا فضل الرحمان کان اڳتي وڌي نواز شريف تائين به ويندي. جيڪڏهن ايئن ٿيو ته پيپلزپارٽي وري گڏيل عرب امارتن وارو چينل استعمال ڪندي، جنهن سان ذوالفقار علي ڀٽو کان وٺي بينظير ڀٽو ۽ آصف زرداري تائين پارٽي جي قيادت جا ويجها ناتا رهيا آهن. انهن ملڪن موجوده حڪومت جي دور ۾ پاڪستان جي مالي مدد ڪئي ۽ تيل به اوڌر تي ڏنو. جيڪڏهن سعوديه جي ثالثي ڪم ڏيکاري ٿي ته رڳو حڪومت جون فرمائشون پوريون نه ٿينديون، بلڪه ان پيڪيج ۾ مولانا فضل الرحمان، نواز شريف ۽ آصف زرداري لاءِ به ڪجهه موجود هوندو. جيڪڏهن اهو ڪم ٿي وڃي ته چئبو ته مولانا فضل الرحمان پنهنجي کسيل سياسي حيثيت بحال ڪرائي وٺندو. پر هاڻوڪو مولانا ڳرو ٿي پوندو. پوءِ اهو وزن نواز ليگ ۽ پيپلزپارٽي کي به کڻڻو پوندو

Labels: , , , ,

Saturday, September 28, 2019

بلاول ڀٽو آخري آپشن ڇونه پيو استعمال ڪرڻ چاهي؟

بلاول ڀٽو آخري آپشن ڇونه پيو استعمال ڪرڻ چاهي؟: بلاول ڀٽو آخري آپشن ڇونه پيو استعمال ڪرڻ چاهي؟



بلاول ڀٽو آخري آپشن ڇونه پيو استعمال ڪرڻ چاهي؟


سياستدانن کي ممڪن آهي ته ڪا معلومات هجي ته ايندڙ ٽن مهينن ۾ ڪجهه ٿيڻ وارو آهي يا نه، پر هرڪو ڊسمبر جي ڳالهه پيو ڪري. عام ماڻهو وٽ به ان جي لاءِ ڪا پڪي پختي ڄاڻ ناهي، پر هڪ منطق ضرور آهي سا اها ته سياست ۽ معيشت جيئن هلن پيون تيئن وڌيڪ عرصو هلي نه سگهنديون. 
حڪومت گذريل چئن مهينن کان هر مهيني هڪ مخالف گرفتار ڪرڻ جي فارمولي تي هلي رهي آهي. 
نواز ليگ وٽان کيس ڪجهه وٺڻو ناهي، اها رڳو ماٺ ڪري ويهي تڏهن به حڪومت جو ڪم هلي ويندو. 
پيپلزپارٽي سان ٻيو حساب آهي. اتان وفاقي حڪومت توڙي پي ٽي آءِ کي ڪجهه نه ڪجهه وٺڻو آهي. وٺڻ لاءِ ارڙهين ترميم ۽ اين ايف سي ايوارڊ کان ويندي ڪراچي جا انتظامي اختيار ايتري قدر جو اهڙو مڪاني ادارن جو قانون به هتي لاڳو ڪرائڻو آهي جيڪو پي ٽي آءِ جي ايندڙ وقت جي گهرجن وٽان هجي. ان ڪري لڳي ٿو ته هن وقت پيپلزپارٽي ۽ وفاقي حڪومت جي وچ ۾ رائونڊ هلي پيو.

نواز ليگ خلاف اُپائن واراو معاملو في الحال ملتوي پيو لڳي. هڪ ڳالهه ضرور آهي ته نواز ليگ جي قيادت اهو ڏيکاءُ پئي ڏي ته، “اسان کي ڪا تڪڙ ناهي” ورنه ٽي مهينا کن اڳ تائين اهو تاثر جڙيو هو ته نواز شريف لاءِ جيل گهارڻ ڏکيو پيو ٿئي. ان لاءِ مريم بي بي اعلانيه چيو ته هوءَ پنهنجي پيءُ لاءِ ڪجهه به ڪري سگهي ٿي. نواز ليگ ان وقت صفا تحريڪ هلائڻ جي موڊ ۾ هلي ويئي هئي پر هاڻي ايئن نٿو لڳي. ايتري قدر جو عدالتن ۾ هلندڙ ڪيسن ۾ به اڳوڻي وزيراعظم جا وڪيل ڪن اهم نڪتن تي به ٽائيم وٺي رهيا آهن.

پيپلزپارٽي جي شريڪ چيئرمين آصف زرداري، سندس ڀيڻ فريال ٽالپر کانپوءِ پارٽي جو سرگرم اڳواڻ خورشيد شاهه گرفتار ٿي چڪو. سنڌ جي وڏي وزير مرادعلي شاهه جي گرفتاري لاءِ سانباها آهن. وفاق لاءِ سڀ کان اهم سوال آهي ته مراد شاهه جي گرفتاري بعد ڪهڙي ريت صورتحال کي پنهنجي حق ۾ ٺاهي سگهجي ٿو. ان گرفتاري کي ڪيئن پنهنجي فائدي لاءِ استعمال ڪري سگهجي ٿو. 

وڏو وزير نيب جي دٻاءُ هيٺ آهي،نتيجي طور خود سندس فيصلي ڪرڻ جي سگهه متاثر ٿي رهي آهي. ساڳئي وقت سندس هدايتن، حڪمن ۽ فيصلن تي عمل ڪرڻ جي حوالي سان وزيرن توڙي سرڪاري مشنري ۾ سرگرمي بدران سستي آهي. انتظامي مشنري کي ڪو ڊپ ناهي. وڏي وزير پاڻ شايد اهو نوٽ ڪيو آهي، تنهنڪري ئي هو پاڻ رستن تي نڪري آيو آهي. 
اها عام راءِ ٺهي آهي ته پي ٽي آءِ حڪومت سنڌ ۾ نيب هٿان ٿيل گرفتارين مان پنهنجا مقصد حاصل ڪرڻ گهري ٿي. اهڙين حالتن ۾ پيپلزپارٽي جو رول اهم بڻجي ٿو. ان جو ڪردار ئي طئي ڪندو ته ويجهي ماضي ۾ ڇا ٿيڻ وارو آهي.

پيپلزپارٽي اسلام آباد مارچ بابت آل پارٽيزڪانفرنس يا رهبرڪميٽي جو اجلاس سڏائڻ جي رٿ ڏني آهي. مولانا فضل الرحمان جي مارچ بابت پيپلزپارٽي اندر ٻه رايا آهن. هڪ اهو ته ان ۾ ڀرپور شرڪت ڪجي، ٻيو اهو ته اخلاقي حمايت ۽ علامتي شرڪت ڪجي. حالانڪه آصف زرداري ان مارچ جي مڪمل حمايت جي حق ۾ هو پر پوءِ هن فيصلو بلاول تي ڇڏي ڏنو. 
پيپلزپارٽي جو سينيٽر اعتزاز احسن پارٽي اندر خاص نقطهءِ نظر رکندڙن مان هڪ آهي. هو چوي ٿو ته، “عمران خان حڪومت کي معيشت، مهانگائي ۽ بيروزگاري مان خطرو آهي، اهڙي صورت ۾ اپوزيشن کي گهڻي محنت نه ڪرڻي پوندي.” هو شايد مولانا جي مارچ کي “گهڻي محنت” جي دائري ۾ ڳڻي ٿو. 
بهرحال پيپلزپارٽي جو مجموعي بيانيو اهو آهي ته حڪومت هلي نه پئي، مهانگائي جي طوفان ماڻهن کي خاص ڪري نوڪري وارن ماڻهن کي پنهنجي لپيٽ ۾ آڻي ڇڏيو آهي. ڌنڌا ڌاڙي بند آهن. نتيجي ۾ بيروزگاري وڌيل آهي.

بلاول ڀٽو جڏهن پارٽين کي پنج سال پورا ڪرڻ جو موقعو ڏيڻ جي ڳالهه ڪري ٿو، ان جي پويان اها منطق سمجهي پئي وڃي ته سندس خيال موجب رڳو سياسي پارٽين جي احتجاج يا دٻاءُ سان حڪومت نٿي بدلائي سگهجي. حڪومت تڏهن بدلبي جڏهن بدلائڻ وارن ان کي بدلائيندا. پيپلزپارٽي کي اهو به ڊپ آهي ته اهڙي ڪا حرڪت نه ڪجي جنهن سان سڄو نظام ئي ويڙهجي ٽپڙ ٽيشن تي ٿي وڃن ۽ ڪو نئون فارمولا ڊيزائين ڪري ملڪ تي مڙهي نه ڇڏين. 
پيپلزپارٽي جي ويجهن ذريعن جو چوڻ آهي ته پريشر وڌندو ته اتحادي حڪومت جو ساٿ ڇڏيندا، ممڪن آهي ته موجوده پارليامينٽ ۾ ئي واڳ ڌڻي پنهنجو پلان بي آڻين، ان ڪري مولانا وارو رستو ڇاڪاڻ جو آخري آپشن آهي، ان کي استعمال ڪرڻ جو اڃا وقت نه آيو آهي. ان جي بدران اپوزيشن جون پارٽيون پرامن ۽ پنهنجا پنهنجا جلسا ڪن، پوءِ وقت اچڻ تي حڪومت کي روانو ڪرڻ لاءِ سمورو زور لڳائي سگهجي ٿو. 

بلاول ڀٽو سکر ۾ ڳالهائيندي دراصل پارٽين جي الڳ الڳ جلسن واري لائين اختيار ڪئي آهي. هو چوي ٿو ته، “جنوري تائين حڪومت جو خاتمو نه آندو ويو ته جيالن سوڌو پنڊي پهچندس.” پنڊي مان ڪا ٻي معنيٰ به وٺي سگهجي ٿي. پر هن ان جي وضاحت ڪئي ته ذوالفقار ڀٽو کي پنڊي ۾ ڦاهي چاڙهيو ويو ۽ بينظير ڀٽو کي پنڊي ۾ قتل ڪيو ويو. اصل ۾ بلاول جي يو آءِ جي ان تنقيد جو جواب ڏنو آهي ته پيپلزپارٽي جا گرفتار ٿيل همراهه ٻاهر اچڻ گهرن ٿا ۽ آزاد اڳواڻ جيل نٿا وڃڻ گهرن، ان ڪري مولانا جي مارچ کان ڪيٻائين پيا. 
ان سان گڏوگڏ بلاول جي هن بيان ۾ اهو تاثر به موجود آهي ته احتجاج اسلام آباد ۾ ئي ڇو؟ پنڊي ۾ به ڪري سگهجي ٿو. اهو احتجاج جيالا ڪندا، يعني پيپلزپارٽي الڳ سرگرم هوندي جنهن لاءِ جي يو آءِ يا ٻئي ڪنهن کي سڏ نه ڏنو پيو وڃي.
اصل ۾ پيپلزپارٽي لاءِ سنڌ اهم محاذ آهي، اها پارٽي جي ڪمزوري به آهي ته مضبوط پوائنٽ به. هو سنڌ جي معاملي تي ڊنل آهي ته وري ان کان وفاقي حڪومت کي ڊيڄاري به رهي آهي
Bilawal, 2019, Zardari, Faryal, PPP,  PMLN, 

Labels: , , , , ,

Saturday, May 25, 2019

وفاقي حڪومت کي سنڌ ۽ پيپلزپارٽي ۾ فرق ڪرڻ گھرجي!



وفاقي حڪومت کي سنڌ ۽ پيپلزپارٽي ۾ فرق ڪرڻ گھرجي!

عمران خان حڪومت جو پيپلزپارٽي سان ٽڪراءُ اڻٽر ٿيندو پيو وڃي. حڪومت نيب جي ذريعي پارٽي قيادت ۽ پارٽي جي ڪجھه اھم ماڻھن خلاف ڪارروائي ڪرڻ ڏي وڃي پئي. سنڌ اسيمبلي جي اسپيڪر سراج دراني خلاف ريفرنس داخل ڪيو پيو وڃي، جڏھن تھ قومي احتساب بيورو جي ايگزيڪيوٽو بورڊ زرداري گروپ لميٽيڊ سميت ٽن انڪوائرين ڪراچي پورٽ ٽرسٽ، آفيسر ھائوسنگ سوسائٽي خلاف بدعنواني جو ريفرنس داخل ڪرڻ ۽ اڳوڻي ڊي جي سنڌ بلڊنگ ڪنٽرول اٿارٽي خلاف ريفرنس داخل ڪرڻ جي به منظوري ڏني آھي. ھوڏانھن سنڌ اينگرو ڪمپني جي چيئرمين خورشيد جمالي سميت ٽن ڄڻن کي جعلي بئنڪ اڪائونٽن واري ڪيس ۾ گرفتار ڪيو ويو آھي. ايئن لڳ ڀڳ ڏيڍ ڊزن کن انڪوائريون اڳوڻي صدر آصف علي زرداري خلاف ٿي رھيون آھن.
اھي سڀ ڪارروايون نيب جي ذريعي ٿي رھيون آھن، نيب جي چيئرمين ريٽائرڊ جسٽس جاويد اقبال جي تازي انٽرويو ۾ ملڪ جون ٻه وڏيون پارٽيون پيپلزپارٽي ۽ نواز ليگ ھڪ ٿي ويون آھن. انھن پنھنجي پر ۾ نيب کي نو لفٽ ڪرڻ جو سوچيو آھي، اھو ئي سبب آھي جو ڪالهه جمعي جي ڏينھن نيب وٽ پيشي تي پارٽي چيئرمين بلاول ڀٽو ۽ آصف علي زداري حاضر نه ٿيا. آصف زرداري جيتوڻيڪ اسلام آباد ۾ ھو پر طبيعت جي ناسازي جو ٻڌائي ڪراچي ھليو آيو، جڏھن تھ بلاول ڀٽو گهٽ مدت جو نوٽيس ھجڻ ڪري پيش ٿيڻ کان معذرت ڪئي، سندن غير حاضري ۾ وڪيل پيش ٿيا. ساڳي طرح نواز ليگ جو نائب صدر ۽ اڳوڻو وزيراعظم شاھد خاقان عباسي به نيب آڏو پيش نه ٿيو. خيال آھي ته اھي ٻئي پارٽيون چاھين ٿيون ته ھو اھڙي نافرماني ڪري ڏسن ته نيب يا حڪومت وڌ ۾ وڌ ڪهڙو قدم ٿي کڻي، خاص ڪري اھڙي موقعي تي جڏھن نيب جي چيئرمين خلاف ھڪ مبينه ويڊيو وائرل ٿيل آھي. ٻئي پارٽيون گذريل چئن ڏينھن دوران نيب جي سربراھ جي ساک گهٽائڻ جي پوري ڪوشش ڪري چڪيون آھن.
ھن منظر ۾ افسوسناڪ صورتحال اها به اُڀري آھي جو وفاقي حڪومت پيپلز پارٽي خلاف ڪارروائي ڪندي، سنڌ کي بھ گهيري ۾ آڻي رھي آھي. 30 جون تي پڄاڻي تي پھچندڙ مالي سال دوران سنڌ کي اين ايف سي ايوارڊ ۾ مقرر ٿيل حصي کان 131 ارب رُپيا گهٽ مليا آھن، جنھن جي ڪري صوبي ۾ ترقياتي ڪم متاثر ٿيا آھن. عجيب ڳالھه اھا آھي جو ان صورتحال بابت صوبن کي اعتماد ۾ نه ورتو ويو. ھلندڙ مالي سال دوران گهٽ رقم ملڻ جو سنڌ حڪومت اھو اشارو ڏنو آھي ته نئين بجيٽ ۾ ڪابه نئين ترقياتي اسڪيم نه رکي ويندي. ايئن صوبي ۾ سمورين حالتن يا ترقياتي ڪم نه ٿيڻ جي ذميواري سنڌ حڪومت وفاقي حڪومت تي وجھي رھي آھي. ان ڏس ۾ وزيراعظم عمران خان جو اھو اعلان خاص حوالو بڻجي رھيو آھي ته صوبا نه به چاھين پر کين پنھنجي حصي مان فاٽا لاءِ ٽي سيڪڙو ڏيڻو پوندو.
ايم ڪيو ايم جي ذريعي وفاقي حڪومت پوري ڪوشش ڪئي ته ڪراچي ۾ ترقياتي ڪمن ۽ شھري سھولتن جي کوٽ واري فلم سنڌ حڪومت جي ڳچي ۾ وجھي. سنڌ ان حملي ۾ بچاءُ جي ڪوشش ڪري رھي آھي، ان سان گڏوگڏ صوبي ۾ ڪنھن نه ڪنھن ھنڌ ڪو ننڍو مسئلو به خراب حڪمراني جي ڪري ڀڙڪي پوي ٿو ۽ سنڌ حڪومت جي ڳچيءَ ۾ پوي ٿو، جنھن سان صوبائي حڪومت توڙي پارٽي جي ساک متاثر ٿي رھي آھي، ان صورتحال جي مستقل حل لاءِ حڪومت توڙي پارٽي ٻئي ڪي به اثرائتا اپاءَ نه وٺي سگھيون آھن.
سنڌ جي سامونڊي پٽيءَ ۾ تيل ھٿ نه اچڻ جي ناڪامي جي اعلان سان گڏ وزيراعظم عمران خان ٿرڪول ۾ وفاقي حڪومت طرفان مدد ڏيڻ جي ڳالھه ڪئي آھي نه ته گذريل 9-8 سالن کان سنڌ منٿون ڪندي رھي ته ڪوئلي کي ترقي ڏيارڻ ۾ مدد ڪري پر ان جي ھڪ به نه ٻڌي وئي. عمران خان ٿر جي علائقي ڇاڇرو ۾ به ڪجھه مھينا اڳ جلسو ڪيو، پر ھن تڏھن ٿرڪول ۾ ھٿ ونڊائڻ جي ڳالھه نه ڪئي. ھاڻي سمنڊ مان تيل ھٿ ڪرڻ ۾ ناڪامي بعد ڪوئلي تي سندس نظر پئي آھي. اھا ڳالھھ اھم آھي تھ سمنڊ ۾ تيل جي ڳولا بابت سنڌ حڪومت جو اھو موقف ھو ته اھو سنڌ جي جاگرافيائي حدن ۾ آھي. ان ڪري ان ۾ ھن صوبي جو حصو بيھندو. ڪٿي ايئن ته ناھي وفاقي حڪومت ھڪ دفعو وري معدني وسيلا صوبن کان وٺڻ گھري ٿي؟
وفاقي حڪومت ٻه ڏينھن اڳ ڪراچيءَ جون ٽي وڏيون اسپتالون پنھنجي ڪنٽرول ۾ وٺڻ جو نوٽيفڪيشن جاري ڪيو آھي. سپريم ڪورٽ مختلف اپيلن ۽ پٽيشنن تي جن ۾ پوسٽ گريجوئيٽ ميڊيڪل سينٽر، دل جي مريضن جي اسپتال (اين آءِ سي وي ڊي) ۽ جناح اسپتال جي ڀرسان موجود ٻارن جي اسپتال واپس وفاق کي ڏيڻ جو فيصلو ٻڌايو ھو. فيصلو ته ڪجھھ مھينا اڳ ڪيو ويو ھو. پر نوٽيفڪيشن ھاڻي جاري ڪيو ويو آھي. نوٽيفڪشن جي ٽائيمنگ اھم آھي. ارڙھين آئيني ترميم بعد جڏھن تعليم وانگر صحت کي به صفا صوبائي کاتو قرار ويو ته اھي اسپتالون سنڌ کي ڏنيون ويون، ھن وقت اين آءِ سي وي ڊي جا سنڌ جي مختلف شھرن ۾ 8 سينٽر ھلندڙ آھن. ھن نوٽيفڪيشن تي سنڌ جي وڏي وزير سيد مراد علي شاھ توڙي پارٽي چيئرمين بلاول ڀٽو زرداري شديد ردعمل ڏيکاريو آھي. مراد علي شاھه جو چوڻ آھي ته “نوٽيفڪيشن سان ڪھڙو فرق ٿو پوي. اھي اسپتالون اڳ به اسان پي ھلايون، ھاڻي به اسين ھلائينداسين!” پيپلزپارٽي جي چيئرمين بلاول ڀٽو ھن نوٽيفڪيشن کي صوبائي خودمختياري تي حملو قرار ڏنو آھي. سنڌ جي عام راءِ طرفان به وفاقي حڪومت جي ھن فيصلي تي ڪاوڙ جو اظھار ڪيو ويو آھي.
سنڌ ۽ وفاقي حڪومت جي وچ ۾ دادو ضلعي ۾ واقع نئين گاج جي اڏاوت بابت به اختلاف ھلندڙ آھن. مشرف دور ۾ واپڊا جي ذريعي ان ڊيم جي اڏاوت جو ڪم شروع ڪيو ويو ھو. پر بعد ۾ وفاقي حڪومت ھٿ ڪڍي وئي. سنڌ جو موقف آھي ته اسين زمين ڏيڻ لاءِ تيار آھيون، فنڊ وفاق مھيا ڪري. سنڌ حڪومت جي موقف موجب باقي ٽنھي صوبن ۾ اھڙا منصوبا ھلندڙ آھن. اھا رٿا سنڌ ۾ آھي ان ڪري وفاق اھو ڇو ٿو سمجھي ته اھو منصوبو سنڌ جو آھي؟ اھڙي طرح سنڌ ڪول مائنز لاکڙا ۾ ارڙھين ترميم تي عمل شروع ڪيو ويو آھي. وفاقي آفيسر لاکڙا ڪول مائنز مان غائب آھن. ڪجھه آفيسرن تي ڪوئلو چورائڻ جا ڪيس به داخل ٿيا آھن. ھوڏانھن پاڪستان منرل ڊولپمينٽ ڪارپوريشن ۽ لاکڙا ڪول مائنز ڪمپني جي ليز سنڌ ڪول مائنز ڪمپني رد ڪري ٻي ڪمپني کي الاٽ ڪري ڇڏي آھي. اطلاع آھن ته پاڪستان منرل ڪارپوريشن ۽ لاکڙا ڪول ڪمپني جا پروجيڪٽ بند ڪيا ويا آھن. سنڌ جي توانائي واري وزير امتياز شيخ جو چوڻ آھي ته لاکڙا ڪول پي ايم ڊي سي کي ٽيھه سالن جي ليز تي ڏنو ويو ھو، جنھن جو مدو 2015ع ۾ پورو ٿي چڪو، ھاڻي وفاقي ڪارپوريشن ھتي غير قانوني مائننگ ڪري رھي ھئي.
اسلام آباد ۾ رھندڙ ھڪ سينيئر رٽائرڊ بيوروڪريٽ مطابق، ”ايئن وفاقي حڪومت، پيپلزپارٽي سان پنھنجي جھيڙي کي سنڌ سان جھيڙي ۾ تبديل ڪري رھي آھي. جنھن جو تحريڪ انصاف پارٽي توڙي ان جي حڪومت کي ڪو فائدو نه ملندو، بلڪه ان سان سنڌ ۾ ماڳھين پيپلزپارٽي جي پوزيشن مضبوط ٿيندي، وفاقي حڪومت کي سنڌ ۽ پيپلزپارٽي ۾ فرق ڪرڻ گھرجي!”

Labels: , , , ,

Thursday, May 09, 2019

نواز ليگ ۽ پ پ قيادت جي جبري ريٽائرمينٽ بدران “گولڊن ھينڊ شيڪ”؟



نواز ليگ ۽ پ پ قيادت جي جبري ريٽائرمينٽ بدران “گولڊن ھينڊ شيڪ”؟


ھاڻي 8-9 مھينا ٿيڻ وارا آھن جو پيپلزپارٽي ۽ نواز ليگ جو گھيرو سوڙھو ڪيو پيو وڃي. ھر گذرندڙ ڏينھن مان لڳي ٿو تھ ٻن وڏين ۽ ويجھي ماضي جي حڪمران جماعتن کي “کُڏي لائين” لڳايو پيو وڃي. صورتحال کي اوڏانھن ڌڪيو پيو وڃي جو ٻنھي جماعتن جا وڏا آصف علي زرداري ۽ ميان نواز شريف سياست مان ريٽائر ٿي وڃن يا وري جيل ۾ وڃن. نواز جي ڪيس ۾ اھو عمل ذري گھٽ پورو ٿي ويو آھي. نواز شريف ضمانت جو مدو پورو ٿيڻ بعد جيل ڀيڙو ٿي چڪو آھي، پارٽي ۾ نوان عھديدار چونڊيا ويا آھن. جيتوڻيڪ شھباز شريف اڃان تائين پارٽي جو صدر آھي ۽ اپوزيشن ليڊر آھي پر حالتون توڙي تجزيا نگار ٻڌائين ٿا تھ وٽس اھي ٻئي عھدا بھ رسمي طور آھن. عملي طرح ھو بھ انھن عھدن جون ذميواريون پارٽي جي “نئين قيادت” جي حوالي ڪري چڪو آھي. جيئن نواز شريف پارٽي جي سرپرست طور آھي، شھباز شريف لاءِ بھ ڪا اھڙي جاءِ ڳولي پئي وڃي. مريم نواز ۽ حمزه شريف سان گڏوگڏ خواجا آصف، شاھد خاقان عباسي، رانا تنوير، احسن اقبال کي عھدا ۽ ذميواريون ڏنيون ويون آھن.
ھاڻي پيپلزپارٽي جو وارو آھي. اھو ئي سمجھيو پئي ويو. پيپلزپارٽي جي قيادت خلاف ڪارروائي رمضان جي ڀلاري مھيني کان اڳ ٿيڻي ھئي، پوءِ آءِ ايم ايف سان ھلندڙ ڳالھين جي ڪري خيال آھي تھ اھو ڪم عيد کان پوءِ ٿيندو. مکيھ ڪيس ڪوڙن بئنڪ اڪائونٽن ۽ مني لانڊرنگ وارو آھي پر ان سان گڏ ھڪ ٻھ ڪيس ٻيا بھ تيار ڪري رکيا پيا وڃن، بلڪل ايئن جيئن نواز شريف سان ڪيو ويو تھ متان ھڪ ڪيس ۾ ڪو قانوني جھول نڪري اچي يا ڪو جج فيصلي کي تبديل نھ ڪري وجھي، اھڙي صورت ۾ ٻيو ڪيس تيار ھجي. ٻنھي پارٽين خلاف وڌيڪ ڪاررواين کان اڳ گذريل ڊسمبر ۾ اھا رپورٽ آئي تھ ملڪ ۾ ڪل 79 سياستدان خلاف ڪرپشن جا ڪيس آھن، جن ۾ ٽيھه پنجٽيھه سيڪڙو پيپلزپارٽي جا آھن، جڏھن تھ نواز ليگ جا ٻاويھه کان پنجويھه سيڪڙو، تحريڪ انصاف جا 13 سيڪڙو اڳواڻ آھن. ان کان علاوه ڪجھه سرڪاري ملازمن ۽ واپارين وغيرھ تي بھ ڪيس آھن. جيڪا ڪارروائي ٿي رھي آھي، اھا ٻنھي پارٽين جي قيادت خلاف ٿي رھي آھي. نواز ليگ ۾ نواز شريف ۽ شهباز شريف، پيپلزپارٽي ۾ آصف زرداري ۽ فريال ٽالپر نشاني تي آھن. ٻيا جيڪڏھن آھن تھ اھي ڪارروائي ھيٺ ساڳئي ڪيس ۾ ملوث ٿيل آھن. اھو ئي سبب آھي جو ھن احتساب کي “سليڪٽيڊ” احتساب سڏيو پيو وڃي. ھونئن پيپلزپارٽي ۽ نواز ليگ جا ماڻھو ڪرپشن جي الزام ھيٺ ان ڪري بھ آھن جو ماضي ۾ اھي ئي ٻھ پارٽيون حڪومت ۾ رھيون آھن، تحريڪ انصاف کي تھ ھاڻي وارو مليو آھي.
سڌ سماءُ وارو اڳوڻو وزير فواد چوڌري گذريل ڊسمبر کان اھو چوندو اچي تھ “زرداري ۽ نواز شريف ٻنھي جون جائدادون ضبط ٿينديون ۽ اھي جيل ويندا. انھن جي سياست ختم ٿي چڪي آھي.” انھن ئي ڏينھن ۾ آصف علي زرداري ٽن سالن واري مدت رکندڙن جو ذڪر ڪيو. ھن چيو ھو تھ مقرر مدت وارا اچڻا وڃڻا آھن، ميدان ۾ رڳو سياستدان ئي مستقل رھي ٿو. عدليھ ھجي يا عسڪري ادارو، انھن ٻنھي ھنڌن تي عھدي جي مدت يا عمر جي حد مقرر آھي جنھن بعد اُتان جو ماڻھو ريٽائر ٿئي ٿو ۽ ان جي ڪا بھ مزاحمت نٿي ٿي. انھن ٻنھي ادارن ۾ ويٺل آفيسر پنھنجي پاڻ کي سياستدانن کان مٿانھون سمجھن ٿا، ڇاڪاڻ جو ھو سمجھن ٿا تھ پيشي جي لحاظ کان انھن ٻنھي باقاعدھ سکيا ورتي آھي ۽ ھڪ نقطي تي اچي کين ريٽائر ٿيڻو آھي.
سياستدان جو معاملو ان کان مختلف ھوندو آھي. سياست ملڪي حالتن جو مطالعو گھري ٿي. سماج کي سمجھڻو پوندو آھي، ايڊجسٽمينٽ ۽ اڪوموڊيٽ ڪرڻو پوندو آھي، تنھنڪري سياستدان ٿيڻ ۾ وقت لڳندو آھي. ان لاءِ سھپ وڏي کپي. سياست پنھنجي جوھر ۾ ڪو پيشو يا نوڪري ناھي، اھا بنيادي طور تي خدمت آھي. سياستدان ھٿ ٺوڪيا يا پاڻمرادو نه ھوندا آھن، بلڪه اهي مقبول ھوندا آھن. ھو ھڪ اليڪشن ۾ جيڪڏھن ھارائي اقتدار کان ٻاھر ھليا ويندا آھن تھ ٻي اليڪشن کٽي وري حڪومت ۾ اچي ويندا آھن. سڄي دنيا ۾ سياست ۽ سياستدانن جو معاملو ايئن ئي ھلندو آھي. مسئلو اھو آھي ته سياست ۽ باقي ٻن ادارن جي پاڻ ۾ ڀيٽ ڪرڻ يا ان ڏس ۾ ڪا مزاحمت ڪرڻ سبب ئي ھر ڏھين پندرھين سال سياستدانن جي ڇنڊڇاڻ جو ڪارڻ بڻجي ٿي.سياستدانن ۽ عدليھ توڙي عسڪري اداري ۾ ٻيو فرق اهو بھ آھي تھ ملڪ جا اڄوڪا ٻھ چوٽي جا سياستدان نواز شريف ۽ آصف علي زرداري اڃان تائين سياست جي ميدان ۾ بيٺا آھن. انهن ٻنهي جي حڪمراني دوران ڪيترائي چيف جسٽسز صاحبان ۽ آرمي چيفس آيا ۽ مدو پورو ٿيڻ بعد ريٽائر ڪري ويا. ھڪ ٻيو دلچسپ پھلو اھو بھ آھي تھ سياستدان پنھنجي سياسي وراثت پنھنجي اولاد کي ڏيئي سگھن ٿا، بلڪه ڏني اٿن.
ھاڻي جيڪو فارمولا ٺاھيو ويو آھي سو اھو تھ نواز شريف ۽ آصف زرداري ٻئي سياسي ميدان کان آئوٽ ٿي باقاعدھ ريٽائرمينٽ جو اعلان نھ ڪن تھ پوءِ جيل ۾ وڃي مرحلي وار ريٽائرمينٽ جو گس وٺن. ٻنھي اڳواڻن وڏا وس ڪيا پر ٻنھي خلاف ڪرپشن جو تکو ھٿيار استعمال ٿي رھيو آھي، ھي اھڙو ھٿيار آھي جنھن کي عوام ۾ مقبوليت بھ حاصل آھي. جڏھن عام ماڻھو ڳالھائيندو آھي تھ چوندو آھي تھ “زرداري صاحب ۽ ميان صاحب اقتدار جا مزا ورتا، ھاڻي ڪُنڊڙي وٺي الله الله ڪن. سياسي وراثت اولاد حوالي ڪن.” پر اقتدار عجيب نشو ھوندو آھي. مغل شھنشاھھ اورنگزيب جا قصا تاريخ جو حصو آھن پر تاريخ ۾ اھڙا انيڪ مثال آھن. نواز شريف ۽ آصف زرداري پنھنجي اولاد لاءِ سياست نھ پيا ڪن. حقيقت اھا آھي تھ انھن پنھنجي سياست لاءِ پنھنجي اولاد بلاول ڀٽو ۽ مريم نواز کي ميدان ۾ لاٿو آھي، انهن جي باقاعدھ تربيت ڪئي آھي ۽ ھاڻي انھن ٻنھي وٽ پارٽي جا مکيھ عھدا بھ آھن. اھا الڳ ڳالھھ آھي تھ اھي ٻئي پارٽيون توڙي زرداري ۽ نواز شريف خود پنھنجي طور تي الڳ الڳ ماڊل آھن. ھن وقت آصف علي زرداري بظاھر سياسي منظرنامي کان ٻاھر آھي، جڏھن تھ بلاول ڀٽو زرداري ڏاڍا ريڊيڪل بيان ڏئي رھيو آھي. گذريل ٻن ٽن مھينن کان اھو پيو لڳي تھ بلاول مڪمل طور پارٽي جون واڳون سنڀالي ورتيون آھن يعني پارٽي قيادت ۽ پارٽي ذھني طور فيصلو ڪري ورتو آھي تھ ايندڙ وقت ۾ پارٽي بلاول ھلائيندو، زرداري پاڻ کي پارٽي مان ايئن دستبردار ڪندو، جيئن نواز شريف ڪيو. يعني ملڪ جون ٻھ مکيھ پارٽيون “اولڊ گارڊز” جي بدران نئين نسل جي قيادت ۾ ھونديون. جيئن نوڪري ۾ جبري ريٽائرمينٽ ٿيندي آھي. تيئن اڄ جي ڪارپوريٽ ڪلچر ان جو ھڪ مھذب نالو رکيو آھي جنھن کي “گولڊن ھينڊ شيڪ” چيو ويندو آھي. اھڙي ريت پيپلزپارٽي ۽ نواز ليگ پاران پراڻي قيادت کي “جبري ريٽائرمينٽ” نھ پر گولڊن ھينڊ شيڪ ڏنو ويو آھي ته اهي ٻئي سياسي ميدان کان ٻاھر رھن، انھن جي بدران مريم نواز ۽ بلاول ڀٽو ڀلي سياست ڪن.

PPP, NawazSharif,Golden handshake, PMLN, zardari, Retirement, 2019, Pahenji Akhbar,
https://bit.ly/2DZGXkq

Labels: , , , , , , ,

Wednesday, April 24, 2019

اِن هائوس تبديليءَ کان صدارتي نظام تائين- نيٺ ڇا ٿيندو؟


اِن هائوس تبديليءَ کان صدارتي نظام تائين- نيٺ ڇا ٿيندو؟

ھر گذرندڙ ڏينھن سان معاشي بحران گھرو ٿي رھيو آھي، ھاڻي ان جو اندازو واڳ ڌڻين کي بھ ٿي رھيو آھي. ملڪ کي ان بحران مان ڪڍڻ لاءِ مختلف نسخا ويچار ھيٺ آھن. انھن مختلف آپشنز جا سياسي اظھار به سامھون اچي رھيا آھن. اصل معاملو معيشت کي سنڀالڻ ھو، ڪپتان کي آڻڻ وارن جو خيال ھو تھ جيئن ئي ھو اقتدار جي پچ تي اچي بيھندو تھ رڳو ڇڪا ئي ڇڪا ھوندا، ملڪ تي ڊالرن جي برسات ٿيڻ لڳندي. 9 مھينن تائين دھل وڄندا رھيا تھ شادماني ٿيڻ واري آھي، پر عين وقت تي ماھرن رپورٽون ڏنيون تھ ھتان ڪجھھ بھ نھ ٿيڻو آھي، ڪا خوشخبري ناھي بلڪه بدخبري آھي. وڌيڪ بدخبريون آءِ ايم ايف سان ٺاھه ۽ بجيٽ جي اعلان سان گڏ سامھون اچي وينديون، ان ڪري سياسي شطرنج جا مھرا بدلائڻ واري سوچ پڪي ٿيڻ لڳي. (ياد رھي تھ عمران خان کي آڻڻ تي سڄي وڏي سنگت يڪراءِ نھ ھئي) شريف خاندان کي رليف ڏيڻ ۽ پيپلزپارٽي جي قيادت خلاف ڪريڪ ڊائون نھ ڪرڻ جي پويان بھ اھا ئي سوچ ھئي، جنھن کي تحريڪ انصاف جا يوٿيا ڊيل ۽ ڍر سڏي پنھنجي حڪومت جي سياسي مورچي تي بيانن ۽ سوشل ميڊيا تي نياپن جي انڌاڌنڌ فائرنگ ڪري رھيا ھئا. متبادل لاءِ ھوم ورڪ شروع ڪيو ويو، پھرين نظر ملڪ جي ٻن وڏين پارٽين پيپلزپارٽي ۽ نواز ليگ تي ئي پوڻي ھئي. نواز ليگ اندر اھڙي صورتحال ۾ ٽي رجحان سامھون آيا، پھريون اھو تھ چئن پنجن سيٽن تي بيٺل حڪومت کي “ان ھائوس” تبديلي ذريعي ھٽائي شھباز شريف کي وزيراعظم بڻايو وڃي، پيپلزپارٽي حڪومت ٺاھڻ ۾ نواز ليگ جي مدد ڪري بلڪه گڏيل حڪومت ۾ شامل ٿئي پر حڪومت جي مهنداري پيپلزپارٽي نھ پر نواز ليگ وٽ رھي. نواز ليگ کي حڪومت ڏيڻ جي پويان رڳو قومي اسيمبلي ۾ ان جون سيٽون ئي نھ پر پنجاب جي ناراضگي کي ٿڌو ڪرڻ بھ ھو. ان صورتحال تي مولابخش چانڊيو جو بيان آيو تھ پوءِ کڻي وزيراعظم ئي پيپلزپارٽي جو کڻو. پيپلزپارٽي جي قيادت کي خبر آھي تھ ڪھڙي ڳالھھ ڪنھن جي واتان چورائجي.
نواز ليگ ۾ ٻيو رجحان اھو ھو تھ حالتون اھڙيون آھن جو ڪير بھ کڻي حڪومت ۾ اچي ڪجھه نٿو ڪري سگھي جيستائين واڳ ڌڻي پرڏيھي پاليسي، دفاع ۽ مجموعي حڪمت عملي بابت پنھنجي سوچ ۽ ايجنڊا تبديل نٿا ڪن، ان کانسواءِ ملڪ جون معاشي حالتون ٺيڪ ٿيڻون ئي ناھن. ھن سوچ جو حامي اڳوڻو وزيراعظم نواز شريف آھي. جنهن موجب تڪڙي ناھي ڪرڻي. تحريڪ انصاف حڪومت ڀلي پنھنجي وزن ھيٺ ئي ڪري ۽ کيس سھارو ڏيندڙ بھ ٿڪجي پون. پوءِ معاملو ڀلي نين چونڊن ڏانھن وڃي، پراڻي ايجنڊا سان اِن ھائوس تبديلي ڪنھن جي بھ ڪم جي ناھي.
ھوڏانھن اِن ھائوس تبديلي جا حامي پنھنجي آئيڊيا کي پچائڻ لاءِ ڪوششن ۾ لڳا پيا آھن. علاج جي لاءِ شھباز شريف جي لنڊن ۾ موجودگي کي ھڪ ٻيو “لنڊن پلان” پيا سڏين. پيپلزپارٽي جو اڳواڻ مخدوم محمود ۽ چوڌري شجاعت بھ لنڊن ۾ آھن، اھو تاثر ڏنو پيو وڃي تھ اھي اڳواڻ ضرور ڪا کچڻي پچائيندا ۽ پوءِ ديڳڙو کڻي اچي لاھور ۾ لاھيندا. جيتوڻيڪ شھباز شريف ۽ چوڌري شجاعت جي حلقن ان جي ترديد ڪئي آھي پر مخدوم محمود يا پيپلزپارٽي طرفان ڪا بھ ترديد يا وضاحت سامھون نھ آئي آھي.ويجھن ذريعن جو چوڻ آھي تھ بلاول ڀٽو جڏھن نواز شريف جي طبيعت پڇڻ ويو ھو تھ اڳوڻي وزيراعظم پيپلزپارٽي جي چيئرمين کي اھا ڳالھھ ڪن ۾ وڌي ھئي تھ ھرڀرو تڪڙ نھ ڪريو. ڪپتان ۽ کيس سھارو ڏيندڙ کي وقت ڏيو، جيئن کين احساس ٿئي تھ ملڪ جو گاڏو ايئن نھ ھلندو جيئن هو چاھين ٿا. پيپلزپارٽي جو اھو خيال ھو تھ تڪڙ ۾ چونڊون بھ نٿيون ڪري سگھجن، ڇاڪاڻ جو چونڊن جا نتيجا اڳواٽ طئي ٿيل ھوندا آھن. نواز شريف سمجھي ٿو تھ موجوده حالتن ۽ ايجنڊا جي ھوندي ڪابھ سياسي ڌر ڪجھھ بھ نٿي ڪري سگھي، بس ڪجھھ ڪاسميٽڪ تبديليون آڻي سگھجن ٿيون. ھڪ حد تائين پيپلزپارٽي بھ اھا ڳالھھ سمجھي ٿي، پر ان لاءِ ڏکيو سوال اھو آھي تھ قيادت مني لانڊرنگ ۽ ٻين ڪيسن جي دٻاءُ ۾ آھي، ان ڪري پيپلزپارٽي کي معاملن ۾ تڪڙ آھي. اھو ئي سبب آھي جو ٻئي پارٽيون ھڪ پيج تي ھجڻ باوجود وڇوٽي تي بيٺل آھن. جيئن ٻن وڏين پارٽين تڪڙ نھ ڪئي تھ ھڪ نئون خيال مارڪيٽ آندو ويو تھ جيڪڏھن سياسي پارٽيون ھروڀرو لئھ ٿيون ڪن ته پوءِ ماڳھين پارلياماني نظام کي ئي پاسيرو رکي صدارتي نظام ڏنو وڃي. اھو درست آھي تھ آئين اھڙي اجازت ڪونھ ٿو ڏئي، پر اھڙن معاملن ۾ آئين کان اجازت ڪير گھرندو آھي ڇا؟
مھانگائي ۽ معاشي بدنظمي عام ماڻھو کي جھجھو متاثر ڪيو آھي پر ان اشوءَ کي ڪابھ سياسي جماعت کڻي نھ رھي آھي. ايئن نھ ڪرڻ جي پويان ٻھ وڏا سبب آھن. ھڪ اھو تھ جيڪڏھن عوام کي روڊن تي آندو ويو تھ انھن کي روڊن تان واپس ڪير موڪليندو، ٻيو اھو تھ مھانگائي ۽ معاشي بدنظمي جا مطالبا پچي راس ٿي بيانئي جي شڪل اختيار ڪري ويا تھ پوءِ وڏا معاشي سڌارا ڪرڻا پئجي ويندا، ايئن سڄو ايجنڊا ئي بدلجي ويندو. پيپلزپارٽي سنڌ ۾ ۽ ايم ڪيو ايم وفاق جي گڏيل حڪومت ۾ ويٺل آھي، انھن ٻنھي کي مھانگائي ۽ معاشي سوال تي ماڻھن کي روڊن تي آڻڻ ڀانءِ نھ پوندو.
معاشي دٻاءُ ۽ حڪومت جي ڪارڪردگي چئلينج ٿيڻ بعد ڪابينا ۾ تبديليون ڪيون ويون، ڪابينا ۾ تبديليون بھ ڪجھھ تبديل ڪري نھ سگھنديون، ڇاڪاڻ جو اڳوڻي ٽيم بي اثر سمجھي وئي، ھاڻوڪي تھ ماڳھين “اسٽيٽسڪو” جي علامت آھي. ٻئي پاسي ڪابينا ۾ اڻ چونڊيل ماڻھن جو اضافو ٿي ويو آھي جيڪا ڳالھھ پارليامينٽ ۽ عوام جي مينڊيٽ جي نفي ڪري ٿي. ھونئن بھ پارليامينٽ موجودھ حڪومت ۾ غير اھم بڻيل آھي، ان جي حيثيت ٽاڪ شو يا پريس ڪانفرنس کان وڌيڪ نھ رھي آھي. ملڪ جي ٻن وڏين پارٽين کي ڪرپٽ قرار ڏيڻ جي بيانئي سان سياسي خال وڌي ويو آھي، ان سان نھ ڪا معيشت جي ۽ نھ وري سياسي نظام ۾ ترقي جي ڪا صورتحال پئي نڪري. اوڌر ۽ پِن سِن سان معاشي ترقي پري جي ڳالھھ، معاشي استحڪام بھ حاصل نٿو ڪري سگھجي. تاريخ شاھد آھي تھ معاشي طور ڪمزور ملڪ مضبوط پرڏيھي پاليسي نھ ٺاھي سگھندا آھن. صدارتي نظام، ارڙھين ترميم ھٽائڻ، اين ايف سي ايوارڊ ۾ تبديلي، ڪرپشن ۽ مني لانڊرنگ جا ڪيس بحث جا موضوع ۽ دڙڪا توڙي چئلنيج آھن. ايئن اڄ ڪلھھ سياسي پارٽيون، حڪومت ۽ اھم ڌريون ھڪ ٻئي جو پاڻي ڪڇي رھيون آھن.
In-house change?, 2019,pahenji Akhbar, PPP, PTI, PMLN

Labels: , , , , ,

Wednesday, April 10, 2019

پيپلز پارٽي لاءِ ”سودو“ مهانگو ڪونهي!


پيپلز پارٽي لاءِ ”سودو“ مهانگو ڪونهي!

نوازشريف ۽ شهباز شريف جي گرفتارين توڙي کين بعد ۾ رليف ڏيڻ کانپوءِ هاڻي سياست جو ميدان جنگ سنڌ بڻجي رهي آهي، ملڪ جي هڪ مک مخالف ڌر جي جماعت پيپلز پارٽي جي قيادت سنڌ مان آهي، ان جي هن صوبي ۾ حڪومت به آهي ۽ حمايت به. اسلام آباد ۽ لاهور جون ڌريون پيپلز پارٽي کي سنڌ جي پارٽي سمجهن ٿيون، سنڌ جا ماڻهو پيپلز پارٽي سان ناراضگي ضرور رکن ٿا، پر آخري وقت تي پاسو پيپلز پارٽي جو ئي کڻن ٿا، ڇاڪاڻ جو انهن جي ويجهو بحث ۽ عمل جي آخري نتيجي ۾ ان کان بهتر ٻي ڪا پارٽي موجود ناهي. هنن ڏٺو ته سنڌ جي قومپرستن ۾ پارليماني افعال ۽ ٻڌي ڪونهي، پنجاب ۾ بنياد رکندڙ پارٽيون پوءِ اها نواز ليگ هجي يا تحريڪ انصاف، سنڌ کي ليکي ۾ نٿي آڻي. ايتري قدر جو انهن پارٽين جي حمايت ڪندڙن ۽ پارٽي ليڊرن کي پارٽي قيادت توڙي وفاقي حڪومت ۾ لفٽ ناهي.

آصف علي زرداري، بلاول ڀٽو، فريال ٽالپر جي راولپنڊي ۾ نيب طلبي ۽ سوالنامه ڏيڻ بعد هاڻي نيب مني لانڊرنگ ۽ ڪورٽ بئنڪ اڪائونٽس وارو ريفرنس احتساب عدالت ۾ داخل ڪيو آهي، جنهن جي ڪالهه ٻڌڻي ٿي. ٻڌڻي جي موقعي تي آصف علي زرداري ۽ فريال ٽالپر پيش ٿيا، جنهن ۾ عدالت سندن حاضري کان ڇوٽ واري درخواست رد ڪري ڇڏي. هاڻي اها ٻڌڻي 16 اپريل تي ٿيندي، بلاول ڀٽو کي في الحال احتساب عدالت نه گهرايو آهي پر اطلاعن موجب جاچ جو دائرو وسيع ڪيو ويو آهي، جنهن جي لپيٽ ۾ سنڌ جو ڪو وڏو وزير ۽ ڪامورا به اچي سگهن ٿا
.
گذريل ٻن مهينن کان نيب پيپلز پارٽي جي قيادت جي گرفتاري جا سانباها ڪري رهي هئي، ان عرصي دوران پارٽي قيادت عوامي سطح تي توڙي لابنگ ۾ وڏي پيماني تي سرگرمي ڏيکاري. آصف علي زرداري توڙي بلاول ڀٽو سڌي طرح سنڌ جي ماڻهن ۽ صوبي ۾ اثر رکندڙ اسيمبلي ميمبرن سان رابطا ڪيا، جلسا ڪيا، بلاول ڀٽو ٽرين مارچ ڪيو. ذوالفقار علي ڀٽي جي چاليهين ورسي جي موقعي تي هڪ دفعو وري پارٽي ڪارڪنن کي گڏ ڪرڻ ۽ کين متحرڪ ڪرڻ جو وجهه مليو. ٻئي پاسي آصف علي زرداري نواز شريف، مولانا فضل الرحمان ۽ ٻين پراڻن اتحادين سان ڳالهيون ڪيون، ايتري قدر جو بلاول ڀٽو نواز شريف جي طبعيت پڇڻ به ويو، ايئن حڪومتي پروپيگنڊا مشنري ۽ بيان بازي پنهنجي جاءِ تي، پر اها سمورن الزامن، ڪيسن ۽ جاچ جي باوجود پيپلز پارٽي کي سياسي طوراڪيلو نه ڪري سگهي
.
پيپلز پارٽي پاڻ کي حڪومت مخالف ڌرين توڙي عوام سان پاڻ کي ڳنڍي رکڻ ۾ ڪامياب رهي. امڪاني گرفتاري جي صورت ۾ پيپلز پارٽي طرفان احتجاجي مهم هلائڻ ۽ پنجاب کي نواز ليگ جي مدد سان مهم جو حصو بڻائڻ جي تياري کان حڪومت به آگاهه رهي. ان ٻه ٽي مهينا اڳ ڪارڊ ڏيکاريو هو ته جيڪڏهن پيپلز پارٽي ڳڙٻڙ ڪندي ته کيس ان جي قيمت سنڌ حڪومت وڃائڻ جي صورت ۾ ادا ڪرڻي پوندي. پڙهندڙن کي ياد هوندو ته جي ڊي اي ۽ ايم ڪيو ايم وارا همراهه سکر ۽ گهوٽڪي ۾ وڃي گڏ ٿيا هئا، سڄو معاملو ان تي وڃي بيٺو ته خانڳڙهه جي مهرن جي ذريعي ناصر شاهه ڪو اهم ڪردار ادا ڪري سگهي ٿو. ٽن ڏينهن بعد ناصر شاهه وڏي وزير مراد علي شاهه سان گڏ بلاول ڀٽو سان ملاقات ڪئي، هڪ دفعو ٻيهر پارٽي سان وفادار بيهڻ جو اعلان به ڪيو، ان موقعي تي هن اهڙي پريس ڪانفرنس به ڪئي، هاڻي هڪ دفعو ٻيهر ساڳيو فارمولا آزمائڻ جا اشارا ڏنا پيا وڃن. وزيراعظم عمران خان جو خانڳڙهه جو دورو، اتي ٿيل ڳالهه ٻولهه ۽ وائرل ٿيل وڊيو مان به ڪجهه ڳالهيون ظاهر ٿيون، باقي رهيل ڳالهيون سمجهي سگهجن ٿيون.
اهم واقعو اهو ٿيو آهي جو وزيراعظم عمران خان کي ايم ڪيو ايم سڳي ۽ بنهه ويجهي جماعت محسوس ٿي رهي آهي، جنهن جو هن ڪراچي ۾ اظهار ڪيو. اهڙي ويجهي مائٽيءَ جو سال کن اڳ اظهار علامه قادريءَ سان ڌرڻي ۾ به ڪيو ويو هو. وزيراعظم کي اوچتو ايم ڪيو ايم وارن جي نفاست نظرا چي وئي، نه ته هن جماعت کي ته عسڪري لڏي دهشتگرد قرار ڏئي ان خلاف آپريشن ڪيو، ان جون آفيسون بند ڪيون، جيڪي اڃا تائين بند آهن. وزيراعظم اهو به چيو ته تحريڪ انصاف ۽ ايم ڪيو ايم ۾ ڪو فرق ڪونهي، بلڪه گهڻو امڪان آهي ته ايندڙ چونڊون اهي ٻئي جماعتون گڏجي وڙهن. وزيراعظم جي هن بيان جي تشريح اها ٿي بيهي ته وفاقي حڪومت هاڻي سنڌ ۾ اڪثريتي جماعت کي پاسيرو رکي، ڪنهن ٻي ڌر کي اهم ذميواري ۽ ڪردار ڏيڻ پئي گهري. عجيب ڳالهه آهي ته وزيراعظم ڪراچي کي ڇڏي سنڌ جي ٻين هنڌن تي موجود پنهنجي پارٽي جي ماڻهن توڙي اتحادين کي بنهه کنگهيو ئي ڪو نه، ٻيو ته ڇڏيو کين ڪرڻ لاءِ ڪو ڪم به ڪو نه ڏنائين، ايتري قدر جو اهي سڀ هاڻي پنهنجو سياسي دفاع ڪرڻ لاءِ به لاچار ٿي پيا آهن.
وفاقي حڪومت جي انهيءَ تحريڪ جو پتو سنڌ جي وڏي وزير سيد مراد علي شاهه جي گذريل هڪ مهيني ۾ ڏنل بيانن مان به پوي ٿو، جنهن مان هڪ ۾ هن چيو هو ته وفاقي حڪومت سنڌ حڪومت ڊاهي ٿي سگهي. تازي بيان ۾ هن چيو ته سنڌ حڪومت هٽائڻ لاءِ مخالفن کي 56 ميمبرن جي حمايت حاصل ڪرڻي پوندي. ٻه ڏينهن اڳ قانون واري وفاقي وزير فروغ نسيم جو هڪ خانگي چينل کي ڏنل انٽرويو به خطري جي گهنٽي طور وڳو. هن چيو ته هن وزيراعظم کي سنڌ ۾ آئيني مداخلت جو مشورو ڏنو آهي، هو اهو به چوي ٿو ته اڳ پوءِ وزيراعظم کي سنڌ ۾ اهو قدم کڻڻو پوندو. قانون واري وفاقي وزير جي مشوري موجب آئين جو آرٽيڪل 149 وفاق کي اجازت ڏي ٿو ته ڪنهن به صوبي ۾ امن امان ۽ معيشت جي مسئلي تي مداخلت ڪري سگهي ٿو. هن اها ڳالهه سڌو سنئون سنڌ حڪومت جو نالو کڻي چئي آهي.
حڪومت مخالف تحريڪ هلائڻ مهل پيپلز پارٽي جي سنڌ ۾ حڪومت هجڻ جا فائدا پنهنجي جاءِ تي، پر اهو نقصان به آهي ته اها داءُ تي لڳل هوندي، جنهن جو اظهار ڪري وفاقي حڪومت قانون واري وزير ذريعي سڌي طرح ۽ ايم ڪيو ايم جي نفاست ۾ گرفتار وزيراعظم ان جماعت سان قربت ڏيکاريندي سياسي طور ڪري رهيو آهي. ان جي موٽ پيپلز پارٽي جي چيئرمين بلاول ڀٽو به ڏني آهي، هو چوي ٿو ته جيڪڏهن تحريڪ انصاف جي حڪومت سنڌ حڪومت خلاف قدم کڻڻ تي بيٺي آهي ته وفاقي حڪومت کي ڪيرائڻو ئي پوندو. هن صوبن کي پيپلز پارٽي جي تحريڪ سان ڳنڍڻ لاءِ (خاص ڪري ننڍن صوبن کي) ارڙهين ترميم کي ريڊ لائين قرار ڏنو آهي. ٻئي پاسي مولانا فضل الرحمان چٽو اعلان ڪيو آهي ته اسين حڪومت ڪيرائينداسين، جيڪو ڪرڻو اٿئو سو ڪيو. مولانا اهو اعلان پنو عاقل ۾ اچي ڪيو آهي. آصف علي زرداري تازو ئي سنڌ جي ماڻهن کي بلاول، بختاور ۽ آصفه جي پارت جو نياپو ڏئي جنگ ۾ ٽپي پوڻ جو اعلان ڪري ڇڏيو آهي. پيپلز پارٽي سمجهي ٿي ته هن وقت جيڪا به پارٽي حڪومت سان سڌي جنگ ۾ ويندي ايندڙ حڪومت ان جي ئي هوندي. نواز ليگ جي حڪومت ۾ ان جنگ ۾ تحريڪ انصاف اڳ – راکُو ٿي، جڏهن ته پيپلز پارٽي فرينڊلي اپوزيشن بڻيل رهي، هن وقت نواز ليگ پوئين مورچي تي بيٺل آهي، ان ڪري اپوزيشن ۾ سامهون اچي بيهڻ ۾ پيپلز پارٽي جو فائدو ئي آهي. نواز شريف بيمار آهي، ان جي ضمانت ٿي سگهي ٿي، آصف علي زرداري به ڪو پڃريون ڪو نه پيو کڻي، سندس به طبعيت ايتري صحيح ڪونهي، ان جي به ضمانت ٿي سگهي ٿي، ان ڪري سودو مهانگو ڪونهي.
PPP,Money Laundering, zardari, 2019, PPP-PMLN,pahenji Akhbar,


Labels: , , , , ,

Sunday, March 17, 2019

پيپلز پارٽي قيادت جي گرفتاري : تحريڪ هلائڻ جو چتاءُ



پيپلز پارٽي سنڌ ڪائونسل، پارٽي جي قيادت جي گرفتاري جي صورت ۾ تحريڪ هلائڻ جو چتاءُ ڏنو آهي. گذريل ٻن مهينن کان نيب ۽ حڪومت طرفان هر هفتي اهو ڏيکاءُ ڏنو پيو وڃي ته پارٽي جو سپريمو بس اجهو گرفتار ٿيو. ڪجهه هفتا اڳ خود آصف علي زرداري به اهڙي تياري ڪري ورتي هئي، جڏهن هن سنڌ جي مختلف ضلعن، خاص ڪري اهي هنڌ جتي سندس زمينون ۽ جائداد آهي، اتي جو دورو ڪيو ۽ جلسا پڻ ڪيا. جلسن ۾ هن اهڙي ئي ڏکي ٻولي ڳالهائي هئي، جهڙي 2010ع ۾ ڳالهائي پوءِ ملڪ کان ٻاهر هليو ويو هو، مطلب پيپلز پارٽي توڙي زرداري صاحب هاڻي گرفتاري لاءِ تيار آهن.

پارٽي کي ٻه هفتا کن اڳ اهڙي سڻڪ پئجي ويئي هئي، جنهن کي آڏو رکندي بلاول ڀٽو ڪوٽ لکپت جيل ۾ قيد اڳوڻي وزيراعظم نواز شريف سان ملاقات ڪئي. نواز شريف لاءِ رپورٽون آهن ته هو سخت بيمار آهي پر هو جيل توڙي ملڪ جي اندر ڪنهن اسپتال ۾ علاج ڪرائڻ کان انڪار ڪيو بيٺو آهي. نواز شريف جي انڪار ان ڳالهه کي کولي وڌو آهي ته ڊيل جون مڙيئي ڳالهيون پئي هليون، اهي نواز ليگ کي انگيج رکڻ لاءِ يا وري عوام جي واهپي لاءِ هيون، دراصل ڪا به ڊيل نه ٿي آهي. ماضي ۾ سيد خورشيد شاهه جي بيانن جي باوجود پيپلز پارٽي هاڻي سمجهي ٿي ته سرڪار ۽ نواز ليگ وچ ۾ ڪو ٺاهه نه ٿي رهيو آهي، ان جو اعتراف جيل ۾ ملاقات بعد صحافين سان ڳالهائيندي بلاول ڀٽو به انهن لفظن ۾ ڪيو آهي ته، ”نواز شريف اصولن تي قائم آهي، مان نٿو سمجهان ته ڪو ڊيل ٿي آهي يا نواز شريف ڪو سمجهوتو ڪرڻ لاءِ تيار آهي، آئون سمجهان ٿو ته نواز شريف پنهنجي اصولن تي بيٺل رهندو.“ بلاول ڀٽو جي نواز شريف سان ملاقات رڳو طبيعت پڇڻ لاءِ ڪونه هئي، هڪ ته حالتن ٻنهي ڌرين کي ڌڪي گڏ بيهاريو آهي، سندن لاءِ ضروري آهي ته اهي گڏ بيهڻ جو ڏيکاءُ به ڏين، گڏوگڏ اهو ته ڪا گڏيل حڪمت عملي به ٺاهين. بلاول ڀٽو ٻڌايو آهي ته نئون چارٽر آف ڊيموڪريسي ٺاهي سگهجي ٿو، جنهن ۾ حڪمران جماعت تحريڪ انصاف کي ڇڏي باقي سڀ پارٽيون شريڪ هجن. ياد رهي ته پهريون چارٽر آف ڊيموڪريسي لنڊن ۾ بينظير ڀٽو ۽ نواز شريف جي وچ ۾ ٿيو هو، جنهن جو مقصد سويلين اختيار جي بحالي / بالادستي هو.
بلاول ڀٽو جي نئين ميثاق جمهوريت لاءِ تحريڪ انصاف کي ڇڏي باقي جماعتن کي گڏ ڪرڻ جي ٽوڙ طور حڪومت شدت پسند گروپن کي مين اسٽريم سياست جو حصو بڻائڻ واري حڪمت عملي جو اعلان ڪيو آهي ته جيئن اها اڪيلي نه ٿي سگهي ۽ ساڳئي وقت وٽس اسٽريٽ پاور، جنهن جي هٿن ۾ لٺيون به هجن، تنهن جو ساٿ ملي ويندو. پيپلز پارٽي حڪومت جي انهي تجويز جي مخالفت ڪري رهي آهي.
پيپلز پارٽي کي مليل اطلاع صحيح نڪتو. بلاول – نواز شريف ملاقات جي ٽن ڏينهن کانپوءِ ڪراچيءَ جي بئنڪنگ ڪورٽ مان مني لانڊرنگ ۽ ڪوڙن اڪائونٽن وارا ڪيس نيب سنڌ مان راولپنڊي منتقل ڪري ڇڏيا، انهن ڪيسن ۾ آصف علي زرداري، بلاول ڀٽو زرداري، فريال ٽالپر ۽ ٻين کي جاچ لاءِ نوٽيس پڻ جاري ڪيا ويا آهن. هوڏانهن ڪيسن منتقل ڪرڻ خلاف ملوث ڄاڻايل ماڻهن سنڌ هاءِ ڪورٽ ۾ درخواست پڻ داخل ڪئي آهي. هن وقت پيپلز پارٽي سان واڳيل ڊزن کن وزيرن يا سابق وزير ۽ اڳواڻ جاچ هيٺ آهن يا وري انهن تي ڪيس هلي رهيا آهن، جڏهن ته ٻه ڊزن ڪامورا پڻ انهيءَ لسٽ ۾ آهن، ايئن اٽڪل ٽي ڊزن سنڌ سان واسطو رکندڙ سياستدان جن ۾ پارٽي جي مک قيادت، اڳوڻو وڏو وزير سيد قائم علي شاهه، اسپيڪر سراج دراني به شامل آهن، تن خلاف ڪارروائي يا جاچ هلي پئي. ان صورتحال پيپلز پارٽي کي اهو چوڻ ۾ آساني پيدا ڪري ڇڏي آهي ته ڇا ڪرپشن رڳو سنڌ ۾ ئي ٿي رهي آهي؟ سنڌ جا ڪيس ٻاهر موڪلڻ امتيازي سلوڪ آهي.
انهيءَ سڄي پس منظر ۾ پيپلز پارٽي سنڌ ڪائونسل جو اجلاس ٿيو آهي، جنهن ۾ گرفتارين جي صورت ۾ تحريڪ جو چتاءُ ڏنو ويو آهي، سوال اهو آهي ته جيڪڏهن پارٽي قيادت يعني آصف زرداري ۽ فريال ٽالپر گرفتار ٿين ٿا ته ڇا اها تحريڪ رڳو سنڌ ۾ هلائي ويندي؟ پارٽي ٻين صوبن خاص ڪري پنجاب ۽ خيبر پختونخوا ۾ به موجود آهي، تحريڪ جو بار رڳو سنڌ تي ڇو وڌو ويندو؟ اهو ان ڪري به لڳي ٿو جو پارٽي جي چيئرمين بلاول ڀٽو جي ٽي چار ڏينهن اڳ سنڌ اسيمبلي ۾ وڃڻ ۽ پوءِ پارٽي جي اجلاس ۾ خاص طور تي شرڪت ۽ سندس اجلاس کي خطاب هن اجلاس جي اهميت کي وڌائي ڇڏيو آهي. ڇا پارٽي جي قيادت جي گرفتاري جي صورت ۾ فوري طور تي تحريڪ شروع ٿي سگهي ٿي؟ ماضي جا مثال ٻڌائين ٿا ته تڪڙ ۾ ايئن نه ٿي سگهندو آهي، ذوالفقار علي ڀٽو جي قتل ڪيس ۾ گرفتاري، ڪيس جي فيصلي اچڻ توڙي ڦاهي اچڻ انهن ٽنهي موقعن تي ڪجهه احتجاج ضرور ٿيا هئا، پر تحريڪ نه هلي سگهي هئي، تحريڪ گهڻو پوءِ اٿي. ساڳي ڳالهه نواز شريف جي گرفتاري، جيل وڃڻ، ڪيس ۾ سزا، وطن واپسي ۽ وري گرفتاري جي صورتحال ۾ به ٿي هئي، احتجاج ضرور ٿيو، پر تحريڪ نه هلي سگهي. تحريڪ هلائڻ لاءِ خود اهڙيون حالتون هجڻ ۽ سياسي صف بندي هجڻ ضروري آهي، ايم آر ڊي تحريڪ جي پويان جماعت اسلامي، ڪشميري اڳواڻ سردار قيوم کي ڇڏي باقي سڀ جماعتون شامل هيون، اهي جماعتون تڏهن پيپلز پارٽي سان بيٺيون جڏهن انهن ضياءُ الحق مان آسرو پليو يا ڪي نيون اميدون وابسته ڪيون، جيڪي هو نه پيو پوريون ڪري سگهي. ايم آر ڊي ٺهڻ واري عمل دوران هڪ مرحلي تي جماعت اسلامي به شريڪ ٿيڻ جي حامي ڀري هئي، هن وقت رڳو آصف علي زرداري جي گرفتاري تي احتجاج ته ٿي سگهي ٿو پر تحريڪ نٿي هلي سگهي، تحريڪ ۾ هر ڪا ڌر پنهنجي مفادن يا مقصدن لاءِ شريڪ ٿيندي آهي.
هڪ ڳالهه ضرور آهي ته جيڪڏهن نواز شريف جي بيماري ۽ آصف زرداري جي گرفتاري کي گڏايو وڃي ته پوءِ سنڌ ۽ پنجاب ٻنهي ۾ وڏو آواز ضرور پيدا ٿيندو، ڇا ان جو مطلب اهو سمجهيو وڃي ته بلاول نواز ملاقات ۾ اهڙي ترڪيب بابت ڳالهايو ويو يا ڪجهه طئه ڪيو ويو؟ ان جو جواب اهو ئي آهي ته ڳالهايو ضرور ويو آهي، ڇاڪاڻ جو موٽ ۾ عمران خان کان وٺي شاهه محمود قريشي ۽ شيخ رشيد تائين سڀ بلاول ڀٽو کي ٽارگيٽ بڻائي رهيا آهن، ايئن هو نه رڳو بلاول ڀٽو جي وڌيل رول تي بلڪه جهڙي حڪمت عملي جي هو اڳواڻي ڪرڻ وڃي رهيو آهي، ان تي تنقيد ڪري رهيا آهن. موجوده حڪومتي سيٽ اپ ۾ سنڌ ۽ پنجاب پنهنجي پاڻ کي موجود نٿو سمجهي، ان جو خيال آهي ته اهي ٻئي صوبا ان سيٽ اپ کان ٻاهر آهن، اهڙي صورت ۾ ٻن صوبن سو به وڏن صوبن جو گڏجڻ اهم صورتحال پيدا ڪري سگهي ٿو. پيپلز پارٽي پنهنجي سنڌ ۾ حڪومت وڃائڻ نه چاهيندي، نواز ليگ وٽ وڃائڻ لاءِ ڪجهه به ناهي، ان ڪري ٻنهي پارٽين جا مفاد هڪ جيترا ۽ ساڳيا ناهن، ميدان ۾ رڳو اهي ٻه پارٽيون ناهن، تحريڪ انصاف به آهي، اصل ڌر ڌڻي به آهن، ڏسجي ايندڙ هفتي راند ڪيئن ٿي کُلي.

Labels: ,

Thursday, January 03, 2019

تحريڪ انصاف سنڌ ۾ ڇا ٿي ڪرڻ چاهي؟

تحريڪ انصاف سنڌ ۾ ڇا ٿي ڪرڻ چاهي؟


ڪوڙن بئنڪ اڪائونٽن ۽ مني لانڊرنگ جي چڪاس لاءِ سپريم ڪورٽ جي جوڙيل جي آءِ ٽي جي رپورٽ بعد ملڪي سياست ۾ آيل طوفان اڃا ختم نه ٿيو آهي. اها جي آءِ ٽي جي رڳو رپورٽ هئي جيئن خود سپريم ڪورٽ به چيو آهي ته رپورٽ ۾ ”شڪي“ طور ڄاڻايل ماڻهن کي ڏوهاري قرار ڏيڻ لاءِ ڊگهو قانوني سفر اڃا طئي ڪرڻو آهي

 هن رپورٽ جو اڃا سپريم ڪورٽ پاڻ
 جائزو وٺندي پر تحريڪ انصاف جي حڪومت کي بنهه تڪڙ هئي جو هن سپريم ڪورٽ جي چوڻ کان اڳ 172 ڄڻن جا نالا اِي سي ايل ۾ وجهي ڇڏيا. هن رپورٽ تي عدالت جي اسڪروٽني ۽ عدالتي حڪمن بنا حڪومت ڪيئن اهي قدم کنيا ۽ انهن جي قانوني حيثيت ڪهڙي بيهي ٿي، هي وڏا سوال آهن.

هن رپورٽ تي حڪومت جي بنهه گهڻي تڪڙ مان لڳو ته حڪومت عدليه جو ڪم پاڻ ڪري رهي آهي، جڏهن ته ان کان اڳ ڪيئي ڪم جيڪي حڪومت کي ڪرڻا هئا تن لاءِ اها عدليه جي محتاج رهي.جنهن ڳالهه سڄو سياسي بحران پيدا ڪيو، سو هو سنڌ جي وڏي وزير مراد علي شاهه جو نالو اي سي ايل ۾ ڏيڻ ،کائنس استعيفيٰ جو مطالبو ڪرڻ، پيپلز پارٽي جي 22 ميمبرن جون وفاداريون تبديل ڪرائي صوبي ۾ پنهنجي حڪومت ٺاهڻ جون ڪوششون ۽ گورنر راڄ جون ڌمڪيون! ان لاءِ گورنر سنڌ ۽ وفاقي وزيرن ۽ پارٽي اڳواڻن مهم شروع ڪري ڏني.سپريم ڪورٽ جڏهن ان قصي جو نوٽيس ورتو ۽ وارننگ ڏني ته جيڪڏهن گورنر راڄ لڳو ته اهڙي حڪم کي هڪ منٽ ۾ اڏائي ڇڏبو، تنهن بعد ڪجهه ٺاپر آئي، 

پر وفاقي حڪومت پنهنجي ان ئي هوڏ تي بيٺل رهي جو عدالت جڏهن سنڌ جي وڏي وزير جو نالو لسٽ ۾ هجڻ تي وفاقي ڪابينا جي اهڙي فيصلي تي نظرثاني لاءِ چيو ته ان نظرثاني لاءِ ڪميٽي جوڙي ورتي. هتي اها ڳالهه ذهن ۾ رکڻ جي آهي ته عدالت وفاقي ڪابينا جي انهيءَ فيصلي کي مڪمل طور رد نه ڪيو، بهرحال حڪومت طرفان عدالتي هدايتن تي گوٿ ناٿ ان ڳالهه کي هيڪاري هٿي ڏني ته احتساب واري اهڙي قدم جي پويان ڪي سياسي مقصد آهن، لسٽ تي نظرثاني به تڪڙي نه ڪئي وئي آهي. ان ڪري اهو چوڻ غلط نه ٿيندو ته سنڌ ۾ اهو کيل ختم ٿي ويو آهي.

تحريڪ انصاف سنڌ جو پاڻي ڪڇي ورتو، ان سنڌ ۾ چونڊيل حڪومت ڊاهڻ کان اڳ سوچيو ئي نه هو ته هوءَ ڇا ڪرڻ وڃي پئي، پيپلز پارٽي جي رڳو هڪ صوبي ۾ حڪومت ناهي پر اها ملڪ جي ٽئين وڏي پارٽي آهي، جيڪا قومي اسيمبلي سان گڏ سينيٽ ۾ به اثرائتو وجود رکي ٿي. اهڙي صورت ۾ حڪومتون ٽوڙي ۽ وري ٺاهڻ هڪ خطرناڪ مظهر آهي.

سنڌ حڪومت کي ٽوڙڻ لاءِ وفاقي حڪومت رابطا سازي شروع ڪئي ته پيپلز پارٽي وفاق کي ڌمڪي ڏني، بلاول ڀٽو چيو ته وڏو زرداري موڪل ڏئي ته مرڪز ۾ پي ٽي آءِ جي حڪومت ڊاهي ڏيکاريون، يعني توهان اسان جي حڪومت ڊاهيو ته اسان توهان جي حڪومت ٿا ڊاهيون. احتساب جنهن جا وڏا هوڪا پئي ڏنا ويا سو الائي ڪيڏانهن ويو؟ سياست بازي شروع ٿي وئي، اها صورتحال خود وفاقي حڪومت شروع ڪئي نه ته ان کان اڳ آصف علي زرداري ڀلي داٻا پئي ڏنا پر سياسي بحران واري صورتحال پيدا نه پئي ٿي. 
مراد علي شاهه خلاف مهم ۽ اڪثريتي پارٽي جي بدران اقليتي ۽ پسند جي حڪومت ٺاهڻ جي ڪوشش تحريڪ انصاف جي حڪومت کي ڳالهه ڳچي ۾ وجهي ڇڏي.ڄڻ 90 جي ڏهاڪي واري سياست کي جيارڻ جون ڪوششون ڪيون ويون، جنهن ۾ سياسي پارٽيون هڪ ٻئي جا پير پيون ڪڍن. پي ٽي آءِ چاهيو پي ته سنڌ ۾ ڄام صادق علي ماڊل واري حڪومت ٺاهي وڃي، اڪثريتي پارٽي کي نظرانداز ڪري ننڍن ننڍن گروپن کي ملائي سياسي انجنيئرنگ سان هٿ ٺوڪيو سيٽ اپ ٺاهيو وڃي.گورنر راڄ يا وري اڪثريتي پارٽي کان زوري حڪومت کسي نئين جوڙ جڪ، جيڪا پنهنجي جوهر ۾ غير جمهوري آهي، ان خلاف سنڌ ۾ راءِ ٺهي. روايتي توڙي سوشل ميڊيا تي شور ٿيو، آصف علي زرداري جا خانڳڙهه، ڪشمور وارا دورا پنهنجي جاءِ تي، پر عدالتي ريمارڪس به تحريڪ انصاف جي ڦوڪڻي مان ڪنهن قدر هوا ڪڍي. پوءِ پيپلز پارٽي جي شڪي ميمبر جون وضاحتون شروع ٿي ويون ته فنڪشنل ليگ به اعلان ڪيو ته اها پيپلز پارٽي جي حڪومت ٽوڙڻ وارين ڪوششن جو حصو نه بڻبي.

تحريڪ انصاف ميدان ۾ سٺي حڪمراني ،عوام جي حقن ۽ تبديلي جي نعري سان لٿي پر پوءِ سمورو زور 2013 جي چونڊن ۾ ڌانڌلي تي لڳايو، يعني ماڻهن کي ڪنهن واضح پروگرام جي بدران هڪ نقطي تي ميڙاڪا ڪيا، ٻين لفظن ۾ اهي سڀ ڌرڻا ان لاءِ هئا ته اسان کي حڪومت ڇو نه ملي. 
ڌانڌلين واري مهم لاڀائتي نه ٿي پر تيستائين پاناما ليڪس جو ڍڪڻ کلي ويو جنهن تي هن نواز شريف حڪومت کي گهيري ۾ آندو، تحقيقات ۽ ڪيس هلايا، نيٺ نواز شريف ۽ سندس پارٽي کي آئوٽ ڪيو ويو. هن سڄي پلاننگ ۾ سڀ کان پهرين نواز شريف کان وزيراعظم جو عهدو کسيو ويو پوءِ پارٽي ۾ اختيار! هاڻي اهو ساڳيو نتيجو سنڌ ۾ پيپلز پارٽي تي به آزمايو پيو وڃي، ضروري ناهي ته هر نتيجو هر وقت ۽ هر ڪنهن لاءِ استعمال ڪجي ۽ ان مان ساڳيا نتيجا حاصل ٿي سگهن، جيڪڏهن آصف علي زرداري ۽ سندس خاندان جو ئي احتساب ڪرڻو هو ته سنڌ حڪومت کي وچ ۾ڇو آندو ويو؟ ڇا اهو سٺو نه هو ته قانوني طريقي سان احتساب جو عمل جاري رکجي ها ۽ خود سنڌ حڪومت کي موقعو ڏجي ته پنهنجي قيادت خلاف ڪارروائي تي ڪهڙو رد عمل ٿي ڏئي، وفاقي حڪومت تڪڙ ۾ پيپلز پارٽي لاءِ ڄڻ سهولت ڪري ڇڏي.

هي وڏو سوال آهي ته تحريڪ انصاف سنڌ ۾ سياسي تحرڪ کي اڻٽر ڇو بڻايو؟ اهو درست آهي ته سنڌ اسيمبلي ۾ عددي لحاظ کان ٻي وڏي پارٽي آهي پر عوامي ۽ مقبوليت جي سطح تي ڪمزور ناهي، اها ڳالهه به چئي پئي وڃي ته عام چونڊن جا ڪراچي وارا نتيجا انجنيئرنگ جو نتيجو آهن، هوڏانهن شهري علائقن ۾ ايم ڪيو ايم جي تقسيم در تقسيم جي باوجود اڃا تائين اها سوچ موجود آهي. 
صوبي جي ٻن وڏن شهرن کي ڇڏي پيپلز پارٽي پنهنجي جاءِ نه ڇڏي آهي، جيڪڏهن ڪٿي ڪا جاءِ آهي يا ڪو حلقو آهي ته به تحريڪ انصاف جي حق ۾ ناهي يا وري پي ٽي آءِ جي ان تحريڪ ۾ سندس ساٿ ڏيڻ لاءِ تيار ناهي. ان ڪري تحريڪ انصاف جو سنڌ ۾ حڪومت مٽائڻ وارو قدم سياسي انجنيئرنگ ٿي سگهي ٿو پر ان کي عوام وٽان قبوليت نه ملندي. پي ٽي آءِ ملڪ جي ٻئين نمبر وڏي صوبي جو ڪنٽرول ڇو ٿي رکڻ چاهي؟ ان سان انهن خدشن کي هٿي ملي ٿي ته اها ملڪ اندر هڪ پارٽي وارو نظام آڻڻ گهري ٿي.

اسٽيبلشمينٽ کي هميشه مضبوط مرڪز ئي سٺو لڳندو آهي، مالي يا انتظامي خودمختياري کيس ڪو گهڻو وڻندي ناهي، ڪڏهن ڪڏهن ته ماگهين اهي ئي شيون ملڪي سلامتي خلاف هجڻ جو طعنو ڏنو ويندو آهي. اهڙي قسم جا اظهار ڪيترائي ڀيرا ماضي بعيد توڙي حال ۾ ٿيندا رهيا آهن، پيپلز پارٽي، نواز ليگ ۽ ڪجهه ٻيون پارٽيون ارڙهين ترميم ۽ اين ايف سي ايوارڊ ڏيڻ جو حصو وٺنديون آهن، تحريڪ انصاف تن ڏينهن ۾ پارليامينٽ ۾ اها حيثيت نه پئي رکي ان ڪري اها پنهنجي پاڻ کي ان جو پابند به نٿي سمجهي ۽ نه وري ڪڏهن ان صوبي جي مالي ۽ انتظامي حقن لاءِ ڳالهايو آهي. هي سڄو ماحول ٺهيل آهي ۽ لڳاتار اشارا پيا ملن ته اين ايف سي ايوارڊ ۾ تبديلي ايندي ۽ ارڙهين ترميم ۾ به ڦير ڦار ٿيندي. ان موقعي تي پيپلز پارٽي پنهنجي قيادت خلاف حڪومتي ڪاررواين ۽ احتساب جي عمل کي پاڻ ۾ ڳنڍي پيش ڪرڻ ۾ ڪامياب وئي آهي، مرڪزي حڪومت پنهنجي لاءِ هيڪاري تڏهن ڏکيائي ڪئي جڏهن ان احتساب سان گڏ سياست کي ملايو.

https://www.pahenjiakhbar.com/articles/%D8%AA%D8%AD%D8%B1%D9%8A%DA%AA-%D8%A7%D9%86%D8%B5%D8%A7%D9%81-%D8%B3%D9%86%DA%8C-%DB%BE-%DA%87%D8%A7-%D9%BF%D9%8A-%DA%AA%D8%B1%DA%BB-%DA%86%D8%A7%D9%87%D9%8A%D8%9F/

Labels: , , , ,

Friday, December 28, 2018

عابدی کا قتل کہیں گیم چینجر نہ بن جائے!

عابدی کا قتل کہیں گیم چینجر نہ بن جائے!
کراچی کا امن ہاتھوں سے پھسل نہ جائے؟
میرے دل میرے مسافر سہیل سانگی
صوبائی دالحکومت کراچی میں مشکل اور صبر آزما جدوجہد اور آپریشن کے بعدامن قائم ہوا تھا۔ اس شہر کی روشنیاں اور رونقیں بحال ہوئی تھی کہ اچانک دہشتگردی نے ایک بار پھر سر ٹھایا ہے۔شہر میں چھ ہفتوں میں چھ دہشتگردی کے واقعات ہوئے۔ پہلے قائد آباد کا واقعہ، چینی قونصل خانے پر حملہ، ایم کیو ایم کی محفل میلاد پر حملہ، ڈیفنس میں کار بم دھماکہ، پی ایس پی کے دو کارکنان شہید ہوئے اور اب یہ علی رضا عابدی والا واقعہ پیش آیا۔
یہ ایک دہشتگردی کا واقعہ ہے۔ لیکن کراچی میں دہشتگردی کے واقعات سیاسی پس منظر کے بغیر نہیں سمجھے جاسکتے۔
ماضی کے اکثر واقعات ایم کیو ایم کے اندرونی چپقلش یا بعد میں ایم کیو ایم کی کوکھ کی جنم لینے والے گروپس کی لڑائی قرار دیئے جاتے رہے ہیں۔ لیکن بعد میں یہ سلسلہ رک گیا تھا۔
ایم کیوایم میں تقریبا دو سال قبل شروع ہونے والی ٹوٹ پھوٹ تاحال جاری ہے۔ پہلے پاک سر زمیں پارٹی بنی5 فروری 2018ء کو ایم کیو ایم کے سینئر رہنماؤں کے درمیان اختلافات کھل کر تب سامنے آئے جبکہ ڈاکٹر فاروق ستار کامران ٹیسوری کو سینیٹ انتخابات کیلئے پارٹی ٹکٹ دینا چاہتے تھے۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے فاروق ستار کے فیصلے کے مخالفت کی۔ جس کے بعد پارٹی دوحصوں یعنی ایم کیو ایم بہادر آباد اور ایم کیو ایم پی آئی بی میں تقسیم ہوگئی تھی۔
بظاہر25 جولائی کے عام انتخابات سے قبل مختلف دھرے متحدتو ہوئے۔ لیکن یہ اتحادکوئی نتیجہ نہیں دے پائے۔ مختلف گروپ انتخابات میں ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ پارٹی کو بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا۔فاروق ستار کو انتخابات سے پہلے ہی صورتحال کی بو آگئی تھی۔ ماہ جون میں ڈاکٹر فارق ستار نے کہا ہے کہ مائنس ون کی جگہ مائنس ٹو کیاجارہا ہے۔25 جولائی کے الیکشن میں پارٹی 17 سے 4 سیٹوں پر پہنچ گئی۔فاروق ستار بھی ہار گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا ایک گناہ یہ بھی تھاکہ میں نے پی ایس پی کے پروجیکٹ کو ناکام بنایا۔ سمجھا یہی جارہا ہے کہ ان پر اسٹبلشمنٹ یقین کرنے کو تیار نہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ فاروق ستار کے لندن سے رابطے ختم نہیں ہوئے۔
ڈاکٹر فاروق ستار نے پارٹی کے اندر احتساب کا مطالبہ کردیا۔جس کے معنی یہ ہو رہی تھی کہ ایم کیو ایم بہادرآباد کے لوگ حساب دیں۔ یہ مطالبہ لندن کے مطالبے سے ملتا جلتا نظر آتا ہے۔ چند ماہ قبل رابطہ کمیٹی نے 35 سالہ متحدہ قومی مومنٹ کی چوٹی کے رہنماوں میں شمار ہونے والے رہنما فاروق ستار کو پارٹی سے نکال دیاہے۔
انتخابات کے بعدایم کیو ایم ہائبرنیشن میں چلی گئی ہے۔ وہ کوئی جھگڑا کوئی اپوزیشن کی سیاست نہیں کرنا چاہتی۔وفاق میں تحریک انصاف کی مخلوط حکومت میں شامل ہے۔ سندھ اسمبلی میں بھی وہ تحریک انصاف کا ساتھ ہے۔ لیکن اپوزیشن کا بھرپور کردار بھی ادا نہیں کر رہی۔شہر کے مسائل اس کی ترجیح نہیں رہے۔ مبصرین کے مطابق وہ آپریشن کی کارروایوں اور گرفتار شدگان اور دائر شدہ مقدمات کے حوالے سے رلیف چاہتی ہے۔ جب تحریک انصاف حکومت کا نواز لیگ اور پیپلزپارٹی دونوں کے ساتھ جھگڑا ہے یہ اچھا موقع ہے کہ کچھ فائدہ اٹھائے۔خالد مقبول صدیقی اور ان کے ساتھیوں نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کو یہ بات منوا لی ہے۔ لہٰذا کارکنان فاروق ستار سے دور کھڑے ہیں۔
ایم کیو ایم کے مختلف گروپس میں یہ بات محسوس کی جارہی ہے کہ کوئی بڑا زیادہ رلیف دینے کے موڈ میں نہیں۔ستمبر کے آخر میں تحریک انصاف کے رہنما اور گورنر سندھ عمران اسمٰعیل نے کہہ چکے ہیں کہ ماضی میں فلاحی اداروں کے پلاٹوں پر قبضوں اور چائنہ کٹنگ میں ایم کیو ایم ملوث رہی لیکن ان کے ساتھ اتحاد ہماری مجبوری ہے۔یعنی تحریک انصاف کراچی میں اپنی سیاست اور اپنی جگہ بنانا چاہتی ہے۔
انتخابات کے بعدایم کیو ایم مخمصہ کا شکار ہوگئی۔یہ سوچ ابھرنے لگی کہ مہاجر سیاست کا کیا ہوگا؟ اس کو زندہ کرنے کے لئے مختلف فارمولے سامنے آئے کہ ایم کیو ایم کے تمام دھڑوں کو کٹھا کیا جائے ۔دوسرا یہ کہ کوئی نئی پارٹی بانئی جائے۔ضمنی بلدیاتی انتخابات نے اس سوچ کا ایک عکس دکھایا۔اب یہ سوچ روان سال متوقع انتخابات ایسا موقعہ آنے والا تھا کہ اپنا بھرپور اثر دکھائے۔
مقتول رہنما رضا علی عابدی پچھلے کئی دنوں سے ایم کیو ایم کے تمام گروپس میں اتحاد کے لئے کوشاں تھے۔ انہوں نے ایک مصالحتی کمیٹی بھی بنائی اور ذاتی طور پر اس پلان کے لئے مہاجر قومی موومنٹ، پاک سر زمین پارٹی اور ایم آ ئی ٹی کے رہنماؤں سے بھی رابطہ کیا تھا۔وہ کہتے تھے کہ 2018ء کے عام انتخاب میں ایم کیو ایم کو بڑا دھچکہ لگا ہے، جس کے ازالے کے لیے ’’مہاجر قوم‘‘کراچی اور سندھ کے تمام سیاسی رہنماؤں کو متحد ہونا پڑے گا تاکہ آئندہ بلدیاتی انتخاب میں سندھ کے شہری علاقوں سے ان کی اصل قیادت سامنے آسکے ۔ انہوں نے ایم کیو ایم بہادر آباد کی قیادت سے بھی اپیل کی تھی کہ کراچی اور مہاجروں کو نقصان سے بچا نے کے لئے حکمت عملی بنائی جائی ۔علی رضا عابدی نے رواں سال اگست کے آ خر میں اختلافات کی وجہ سے ایم کیو ایم کی بنیادی رکنیت سے استعفی دے دیا تھا ۔ علی رضا عابدی ایم کیو ایم میں اختلافات کے بعد ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ تھے ۔
سندھ حکومت کو فکر ہے کہ پے درپے واقعات کی وجہ سے کہیں کراچی کا امن ایک بار پھر ہاتھوں سے پھسل نہ جائے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گرد اکٹھے ہورہے ہیں اور ہم چپ کرکے بیٹھ گئے ہیں ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے یہ صورتحال تشویش ناک ہے، یہ دہشت گرد اکٹھے ہورہے ہیں اور ہم چپ کرکے بیٹھ گئے ہیں، کراچی کے شہریوں کو خوف کے ماحول میں رہنے نہیں دینگے۔ وزیراعلیٰ سندھ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ صورتحال تشویش ناک قرار دیا کہ دہشت گرد اکٹھے ہورہے ہیں اور ہم چپ کرکے بیٹھ گئے ہیں، کراچی کے شہریوں کو خوف کے ماحول میں رہنے نہیں دینگے، ہرصورت شہریوں کا تحفظ چاہیے۔وزیراعلیٰ سندھ کے یہ جملے معنی خیز ہیں کہ ’’گرفتار ہوجائیں گے نہیں مجھے قاتل گرفتار چاہیءں۔‘‘ ’’اداروں کو خود مختاری دینے کے باوجود اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں۔ ‘‘
’’کراچی بھیجا ہے کہ شہر کے امن کو برقرار رکھنا سب کی ذمہ داری ہے ‘‘ کہہ کروزیر مملکت برائے داخلہ شہریار آفریدی یہ کہہ کر کراچی کے امن و امان کے لئے اپنا کردار بڑاھانے کا اشارہ دیا ہے۔ وہ کراچی پہنچے اور گورنر سندھ عمران اسماعیل سے ملاقات کی۔ انہیں علی رضا عابدی کے قتل کی تحقیقات پر بریفنگ دی گئی۔وزیر مملکت برائے داخلہ کا کہنا ہے کہ عابدی کے قتل کے واقعے کی کڑیاں مل رہی ہیں اور مجرم جلد گرفتار ہوں گے۔ہر زوایہ سے تحقیقات کی جارہی ہیں، باہر کے اور اندر کے تمام عناصر کو دیکھا جارہا ہے۔شہریار آفریدی نے کہا کہ وزیراعظم عمران خان نے مجھے یہ پیغام دے کر کراچی بھیجا ہے کہ شہر کے امن کو برقرار رکھنا سب کی ذمہ داری ہے، واقعے میں ملوث ہر ملزم اور سہولت کار کو گرفتار کریں گے چاہے وہ باہر کا ہو یا اندر کا شخص ہے، کراچی کے امن پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔
رضا علی عابدی کے قتل کی تعزیتی پیغامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کراچی کی سیاست میں ایک اہم فرد تھے اور کوئی اہم کردار ادا کرنے جارہے تھے۔صوبائی اور وفاقی حکموتں کے عہدیداران کے بیانات سے لگتا ہے کہ واقعہ کے دہشتگردی کے حوالے سے مضمرات اپنی جگہ پر ،وفاقی و صوبائی حکومت کو گہری تشویش میں مبتلا کردیا ہے کہ کہیں یہ واقعہ کراچی کی سیاست میں گیم چینجر نہ بن جائے۔

Labels: , , , ,

Thursday, August 16, 2018

سنڌ جي نئين حڪومت ۽ پيپلز پارٽي -نواز ليگ جي فاصلن جو پسمنظر


سنڌ جي نئين حڪومت ۽ پيپلز پارٽي -نواز ليگ جي فاصلن جو پسمنظر 

جمع 17 آگسٽ 2017ع      

سهيل سانگي

اهو ئي ٿيڻو هو، سيد مراد علي شاهه سنڌ جو وڏو وزير ٿي ويو. چونڊن جي نتيجي ۾ پيپلز پارٽي ٻئي ڪنهن گروپ يا پارٽي جي مدد کان سواءِ سنڌ ۾ حڪومت ٺاهڻ جي پوزيشن ۾ اچي وئي. ماضي وانگر هن ڀيري کيس صوبي توڙي وفاق ۾ حڪومت ٺاهڻ لاءِ نه ايم ڪيو ايم جي ضرورت هئي، ۽ نه وري ڪو مٿس دٻاءُ، جنهن جو ذڪر پارٽي اڳواڻ ۽ تجزيه نگار ڪڏهن ڪڏهن ڪندا رهندا آهن. گڏيل حڪومت اڪثريت ٺاهڻ لاءِ گهربل ميمبرن جو انگ پورو ڪرڻ لاءِ ٺاهي وڃي ٿي، يا ڪنهن مجبوري ۽ سياسي مصلحت تحت، هر صورت ۾ اهڙي حڪومت کي فيصلا ڪرڻ، پاليسيون ٺاهڻ ۽ فيصلن تي عمل ڪرڻ ۾ ڏکيائي ٿيندي آهي. ڏٺو وڃي ته پيپلز پارٽي کي فري هئنڊ آهي. ڏسڻو اهو آهي ته اهڙين مصلحتن کان خالي دور ۾ اها سنڌ جي ماڻهن لاءِ ڇا ٿي ڪري؟
سنڌ اسيمبلي جي ايوان تي جيڪڏهن نظر وجهجي ته اتي ڪجهه چهرا نوان ضرور نظر ايندا، پر ڪي پراڻا چهرا هاڻ ايوان ۾ ناهن، ڄڻ اهي پنهنجو وارو وڄائي ويا. سڀ کان وڏي ڳالهه اها آهي ته اسيمبلي وڏي يا خاص پراڻي سياسي ڪيڊر کان خالي ٿي ويئي. سواءِ سائين قائم علي شاهه يا هڪ ٻه ڪي ٻيا هوندا. نثار کهڙو، منظور وساڻ، پير مظهر الحق ۽ ٻيا اڳواڻ جيڪي محترمه بينظير ڀٽو جي دور ۾ پارٽي توڙي ايوان ۾ اهم ڪردار ادا ڪندا هئا، اهي هاڻ ايوان ۾ نه رهيا آهن. شايد سائين قائم علي شاهه کي ٻارهين رانديگر جيان اسيمبلي ۾ رکيو ويو آهي ته جيڪڏهن پارٽي جي وڏي وزير سيد مراد علي شاهه سان ڪو معاملو ٿئي ته آسانيءَ سان اها جاءِ ڀري سگهجي. اهو صحيح آهي ته پراڻو سياسي ڪيڊر ايوان ۾ نه آيو آهي، پر ان ڪيڊر پنهنجي اولاد کي چونڊائي ورتو آهي. نثار کهڙو جي ڌي ندا کهڙو عام چونڊن ۾ پنهنجي پيءُ جي تڪ تان هارايو، پر عورتن لاءِ مخصوص سيٽن تي اچي ويئي آهي. پير مظهر جي جاءِ تي سندس پُٽ پير مجيب الحق ايم پي اي ٿيو آهي. وساڻ خاندان کي هڪ سيٽ ملي آهي. ائين اهي ماڻهو سياست ۽ حڪومت ۾ پنهنجي نمائندگيءَ جو خانداني تسلسل ته برقرار رکي سگهيا، پر سياسي ڪيڊر وارو تسلسل ختم ٿي ويو. پيپلز پارٽي اليڪٽ ايبلز واري حڪمت عملي تحت چونڊن ۾ حصو ورتو ۽ سنڌ جي ذري گهٽ سمورن اليڪٽ ايبلز کي کڻي پنهنجي جهوليءَ ۾ وڌو. پارٽي ٽڪيٽ نه ملڻ تان اختلاف ٿيا. ڊزن کن سيٽن تي اهي اختلاف پارٽي قيادت آصف علي زرداي، بلاول ڀٽو ۽ فريال ٽالپر جي وچ ۾ اچڻ تي نبرجي نه سگهيا. پارٽي کي پنهنجي 2013ع کان پوءِ واري ٺاهيل حڪمت عملي جي غلطي جو احساس ٿيو، ان ڪري پارٽي قيادت پلان ”بي“ وارو رستو اختيار ڪيو. جيتوڻيڪ عام سيٽن تي خانداني سياست ڪندڙ ۽ بااثر ئي رهيا. پارٽي قيادت، جيڪا ذوالفقار علي ڀٽو ۽ بينظير ڀٽو جيان عوام ۾ هيٺ نٿي لهي سگهي، تنهن پنهنجو ووٽ بئنڪ بچائڻ لاءِ اهو پلان اختيار ڪيو ته ڏتڙيل برادرين کي پنهنجي صفن ۾ جاءِ ڏني. پر اها جاءِ سڌي ووٽ واري نه، پر پارٽي جي نامزدگي واري جاءِ آهي. ننگرپارڪر جي ڪرشنا ڪولهي کي سينيٽر چونڊيو ويو. تنزيلا شيديءَ کي عورتن جي مخصوص سيٽ تي ايم پي اي چونڊيو ويو. ميگهواڙ برادري مان انجنيئر گيانچند اڳ ئي سينيٽر هو، پر ڊاڪٽر کٽو مل کي سمورين ڪوششن باوجود اسلام ڪوٽ واري صوبائي سيٽ تي ٽڪيٽ نه ڏني وئي. ميگهواڙ برادري مان پارٽي جي سرگرم ڪارڪن سمترا جو نالو عورتن واري سيٽ جي لسٽ ۾ وڌو ويو، پر جنهن نمبر تي سندس نالو وڌو ويو، ان جي اچڻ جا امڪان بنهه نه هئا، پر پارٽي کيس مڃتا ڏني. اها مثبت ڳالهه آهي ته انهن ڏتڙيل برادرين ۾ حڪمران جماعت ۾ شموليت سان شراڪت داريءَ جو احساس پيدا ٿيو. ان سان گڏوگڏ پارٽي جي اقليتن جي دل ۾ جاءِ ٺهي. ساڳئي وقت ملڪي سطح توڙي عالمي طور وڏي هاڪ ٿي ته پيپلز پارٽي ڏتڙيل ۽ پوئتي پيل طبقن کي پاڻ سان کڻي هلي رهي آهي، انهن کي ايوان ۾ آڻي مڃتا ڏئي رهي آهي. ائين پارٽي جو سيڪيولر ۽ عوامي رنگ اڀارڻ ۾ مدد ملي. دراصل پارٽي قيادت هيٺين سطح تي تنظيم سازي ڪرڻ ۽ پارٽي ڪيڊر ٺاهڻ ذريعي عوام جي شموليت ڪرڻ واري کوٽ هن انداز ۽ شڪل ۾ پوري ڪئي. جنهن ۾ پارٽي جي عزت به وڌي ۽ پارٽي چونڊون به کٽيون. پارٽي جي هن حڪمت عملي جو چونڊن تي اهو اثر ٿيو، جو اقليتن پارٽي جي حمايت ڪئي. ايتري قدر جو سڄي ميرپور خاص ڊويزن، مٽياري، ٽنڊوالهيار ۽ بدين ۾ پارٽي جي اميدوارن جي پوزيشن مضبوط ٿي وئي. تجزيه نگارن جو خيال آهي ته انهن ضلعن ۾ پارٽي اميدوارن جي يقيني جيت جو وڏو ڪارڻ اهو ئي هو. جڏهن نتيجا آيا ته نه رڳو پارٽي وٽ سيٽون وڌيڪ هيون، بلڪه کٽيل اميدوارن جي ليڊ به وڏي هُئي. پارٽي جي هن حڪمت عملي ساڳئي وقت اليڪٽ ايبلز کي اهو پيغام ڏنو ته توهان ڀلي کڻي وڏا هجو يا گهڻو بااثر ڇو نه هجو، پارٽي جي حمايت کان سواءِ کٽي نٿا سگهو. ان جو وڏو مثال وڏن وڏن هيوي ويٽ پير پاڳاري جي ڀاءُ پير صدرالدين شاهه، غلام مرتضيٰ جتوئي، ارباب غلام رحيم جي شڪست آهي.
سنڌ ڪابينا ۾ ڪجهه ردوبدل يقيني آهي، پر فريال ٽالپر جي سنڌ اسيمبلي ۾ موجودگي بعد سنڌ جا معاملا ۽ فيصلا وري به سندس ئي ميز تي ٿيندا. سنڌ حڪومت کي ڪجهه مشڪلاتون به ٿينديون، ڇاڪاڻ جو هن ڀيري به صوبي ۾ اپوزيشن ۽ گورنر پيپلز پارٽي مخالف پارٽي يعني تحريڪ انصاف جا آهن. هينئر ئي پيپلز پارٽي پاران تحريڪ انصاف جي نامزد گورنر عمران اسماعيل تي اعتراض واريا ويا آهن. هو سمجهي ٿي ته اپوزيشن جي قيادت پي ٽي آءِ وٽ هجڻ سان گڏوگڏ جيڪڏهن انهن جي پارٽي جو گورنر هوندو، سو به وري سخت موقف رکندڙ ته صوبائي حڪومت کي ڏکيائي ٿيندي. نامزد گورنر عمران اسماعيل جو ”بلاول هائوس جون ديوارون ڪيرائڻ“ وارو بيان پيپلز پارٽي جذباتي مسئلي طور کڻي رهي آهي، پر ان جون سياسي معنائون به آهن. اها پارٽي کي وارننگ آهي. پيپلز پارٽي ان ڏس ۾ تحريڪ انصاف کان وضاحت گهري آهي ته اهو بيان پارٽي جو پاليسي بيان آهي يا نامزد گورنر جي ذاتي راءِ؟ پيپلز پارٽي اها به فرمائش ڪئي آهي ته کيس گورنر مقرر نه ڪيو وڃي. اصل ۾ پي ٽي آءِ ڪراچي جي قيادت چاهي ٿي ته سندن گورنر کي اهڙا ۽ اوترا اختيار هجن، جيترا ايم ڪيو ايم جي فرمائش تي رکيل گورنر عشرت العباد کي هُئا. پيپلز پارٽي کي عمران اسماعيل جي بيان مان اها بوءِ اچي ٿي.
وفاق سان پيپلز پارٽي جي سنڌ حڪومت جو معاملو خاص ڪري ٻن ڳالهين تي مدار رکندو. هڪ اهو ته سنڌ ۾ ان جي حڪومت کي ”ڊسٽرب“ نه ڪيو وڃي. ٻيو اهو ته پارٽي جي مُک قيادت خلاف ڪرپشن، مني لانڊرنگ وغيره جي حوالي سان ڪا وڏي ڪارروائي نه ڪئي وڃي. جڏهن ته صوبي طور تي سنڌ جا وفاق وٽ جيڪي معاملا اٽڪيل آهن، تن جي حيثيت ثانوي رهندي. انڪري پيپلز پارٽي وفاق ۾ پاڻ به حڪومت سان ”فرينڊلي“ رهندي ۽ باقي اپوزيشن کي به فرينڊلي رکڻ ۾ اهم ڪردار ادا ڪندي. ان صورتحال ۾ پيپلز پارٽي جي اها گهر به هوندي ته تحريڪ انصاف سنڌ ۾ به ان سان فرينڊلي رهي. تحريڪ انصاف جو فائدو انهي ۾ آهي ته اپوزيشن ورهايل هُجي. اها پيپلز پارٽي کي اهو سمجهائڻ جي ڪوشش ڪندي ته نواز ليگ ٻنهي جي گڏيل دشمن آهي. پيپلز پارٽي ۽ تحريڪ انصاف جي مجبوري آهي ته هڪ ٻئي کي ويجهو رهن. انڪري نٿو لڳي ته پارليامينٽ ۾ تازو ٺاهيل وسيع تر اتحاد ڪو گهڻو وقت هلي. جيڪڏهن هليو، تڏهن به ان جو موثر ڪردار نه هوندو. آصف علي زرداري تحريڪ انصاف توڙي ڌر ڌڻين لاءِ وڏو ڪم ڪيو، جو هن اسيمبلي ۾ قسم نه کڻڻ ۽ بائيڪاٽ ڪرڻ واري مولانا فضل الرحمان جي تجويز اپوزيشن جي اتحاد ۾ رد ڪرائي. جيڪڏهن هو ائين نه ڪري ها ته تازو ٿيل چونڊن جي ڪا به ساک يا ڪريڊبلٽي نه بيهي ها، معاملو اهم ادارن تائين هليو وڃي ها.
صوبي جي حڪمران جماعت پيپلز پارٽي کي هن ڀيري هڪ مختلف قسم جي اپوزيشن سامهون آهي. ان اپوزيشن جي پارٽي وفاق ۾ حڪمران آهي، يعني انهن وٽ وفاقي حڪومت، صوبائي گورنر ۽ صوبي ۾ اپوزيشن هڪ ئي پارٽي وٽ آهن. سنڌ حڪومت لاءِ اهڙي صورتحال ان کان اڳ ڪڏهن به پيدا نه ٿي هئي. گذريل دور ۾ وفاقي حڪومت نواز ليگ وٽ هئي. سنڌ ۾ اپوزيشن ايم ڪيو ايم وٽ هئي، وفاقي حڪومت صوبائي حڪومت کي سياسي طور هئنڊل ڪرڻ لاءِ ايم ڪيو ايم جي محتاج هُئي- پر هاڻي پيپلز پارٽي جي حڪومت تي ٽه طرفو دٻاءُ هوندو. ساڳئي وقت تحريڪ انصاف اهو به چاهيندي ته اها سنڌ جي ٻين علائقن ۾ پير ڊگهيري. پيپلز پارٽي سمجهي ٿي ته ڪراچي ”حساس“ پچ آهي، جتي هاڻوڪي بالنگ ۽ بئٽنگ هڪڙي ئي ڪمانڊ سان ٿيندي. انڪري پيپلز پارٽي ڪراچي بابت ”نرم رويي“ جو اظهار ڪيو آهي. ٻيهر چونڊيل وڏي وزير سيد مراد علي شاهه چيو آهي ته ڪراچي کي وڌيڪ ترقي ڏيارينداسين. هن مطابق ته جن کي ڪراچي جي شهرين رد ڪيو آهي، انهن سان به ڳالهائڻ لاءِ تيار آهيون. هن هڪ قدم اڳتي وڌي اها ڳالهه به ڪئي آهي ته ايم ڪيو ايم جيڪڏهن الڳ صوبي واري مطالبي تان هٿ کڻي ته ان کي صوبائي حڪومت ۾ شامل ڪري سگهجي ٿو. وڏي وزير جو اهو بيان عملي گهٽ ۽ سياسي وڌيڪ آهي. اهو ان ميار جو جواب آهي ته پيپلز پارٽي ڪراچي کي کنگهيو ئي ڪونه. ساڳئي وقت ايم ڪيو ايم کي تحريڪِ انصاف جي بنهه ويجهو وڃڻ کان روڪڻ جي حڪمت ٿي سگهي ٿي. تحريڪ انصاف اپوزيشن ۾ پاڻ کي مڃائڻ لاءِ وڌيڪ سرگرم ۽ فعال ڪردار ادا ڪندي. ان کي هڪ ئي وقت صوبي ۾ پيپلز پارٽي جو مقابلو ڪرڻو آهي ۽ وفاق ۾ اڪثريت برقرار رکڻ لاءِ ايم ڪيو ايم کي به پاڻ سان گڏ کڻي هلڻو آهي. ساڳئي وقت مستقبل لاءِ ڪراچي ۾ پنهنجي جاءِ به ٺاهڻي آهي. ائين کڻي چئجي ته ڪراچي ۾ جاءِ ٺاهڻ لاءِ ٽئي جماعتون هڪ ٻئي جي مقابلي ۾ رهنديون. ڏسجي ان صورتحال ۾ ٻن وڏين پارٽين تحريڪ انصاف ۽ پيپلز پارٽي جون ڪهڙيون ترجيحون ٿيون بيهن ۽ پنهنجا ذاتي ۽ سياسي مفاد بچائڻ لاءِ اهي ڪهڙيون حڪمت عمليون ٿيون جوڙين.

Labels: , , ,