Sangi سهيل سانگي

سهيل سانگي سنڌي ڪالم ۽ آرٽيڪل About Current political, economic media and social development issues

Saturday, September 30, 2017

سندھ ایم آرڈی تحریک کے بعد

2015
سندھ ایم آرڈی تحریک کے بعد
سہیل سانگی
ارتقا لیکچر فائنل
یہ امر میرے لئے باعث افتخار ہے کہ ارتقا انسٹیٹیوٹ آف سوشل سائنسز حمزہ علوی فاﺅنڈیشن، اور دیگر ساتھیوں نے یہ موقعہ فراہم کیا کہ میں ملک میں ترقی پسندی اور روشن خیالی فکر کی وکالتو جدوجہد کرنے اور اس کو پھیلانے والے دوستوں سے مکالمہ کر سکوں۔ اپنا تجربہ اور مشاہدہ بیان کر سکوں۔

 اپنی بات کا آغاز کرنے سے قبل یہ واضح کر دیان ضروری سمجھتا ہوں کہ میرا یہ مکالمہ شاید باقاعدہ تحقیقی مقالہ کے زمرے میں نہ آ ئے ۔ اس کا زیادہ تر حصہ میرے تجربہ، مشاہدہ پر مشتمل ہے۔ میری سایست اور بائیں بازو کی وابستگی 1967 - 68 سے رہی ہے۔ لہٰذا اس تمام دور کے واقعات کا گواہ بھی ہوں اور شریک سفر بھی۔

 سندھ میں تین بڑی تحریکیں اٹھیں جنہوں نے صوبے کی سیاسی ڈئنامکس کو تبدیل کیا۔یہ تبدیلی منفی اور مثبت دونوں طرح کی تھی۔ پہلی سندھ کی بمبئی سے علحدگی کی تحریک تھی۔ یہ تحریک جو بظاہر سندھ کو صوبے کی حیثیت دینے کے لئے تھی۔لیکن اس کا عوامی پہلو یہ بھی تھا کہ سندھ کا کھویا ہوا تشخص بحال ہو جو برطانوی راج نے 1843 میں ختم کیا تھا۔لیکن اس کے پیچھے یہ عوامل بھی شامل تھے کہ سندھ کے بمبئی سے الحاق کی وجہ سے یہاں کا الیٹ کلاس یعنی زمیندارطبقہ، خود کو اقتدار اور اختیار میں شامل نہیں سمجھ رہا تھا۔ جس حد تک شامل بھی تھا تو وہ اس کے لئے ناکافی تھا۔ یاد رہے کہ یہ تحریک صرف بالائی طبقے تک ہی چلی تھی۔

 سندھ کو صوبے کی حیثیت مل گئی۔ اس کے ابھی اثرات اور ثمرات پورے طور پر پہنچے ہی نہیں تھے کہ برصغیر میں تحریک آزادی نے زور پکڑا۔ یوں یہ خواب چند سال تک ہی چلا ۔ برصغیر کی تقسیم ہوگئی۔تقسیم کے نتیجے میںبھارت سے آنے والے لاکھوں مسلمان سندھ میں ہی آکر آباد ہوئے۔ لہٰذا سندھ کا تشخص اس نقل مکانی اور پاکستان کی نوکرشاہی نے مزید عرصے تک چلنے نہیں دیا۔

 سندھ سے کراچی کی علحدگی
 دوسری تحریک ون یونٹ کے خلاف اٹھی۔ 1956 میںبنگالیوں کی اکثریت ختم کرنے کے لئے مغربی حصے کو ایک یونٹ بنایا گیا۔ اس کے نتیجے میں دوسرے صوبوں کی طرح سندھ بھی اپنا الگ تشخص کھو بیٹھا۔ ون یونٹ کی مخالفت پہلے دن سے ہی شروع ہو گئی تھی لیکن اس تحریک نے ساٹھ کے عشرے کے آخری برسوں میں زور پکڑا۔ جب ایوب خان کے خلاف ملک بھر میں ابال آرہا تھا۔ ۔ اس تحریک میں سندھ کے متوسط طبقے نے حصہ لیا ۔ جس میں شعرائ، ادیب اور طالبعلم شامل تھے۔ قیام پاکستان اور سندھ سے ہندو آبادی کی نقل مکانی کے بعد شعراءاور ادیب وغیرہ مقامی لوگوں کا متوسط طبقہ بن گئے ۔شعراءادیب اس لئے بھی شامل ہوگئے تھے کہ ایوب خان نے سندھی زبان سے وہ رتبہ چھین لیا جو اسے برطانوی راج میں حاصل تھا۔بنگالی زبان کا اشو ابھی تازہ ہی تھا۔ یوںذریعہ تعلیم اور دفتری زبان کے معاملات ایجنڈا پر آگئے۔ اس تحریک نے اگرچہ سندھ بھر کے نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر کٹھا کیا، پھر بھی یہ تحریک متوسط طبقے تک محدود رہی۔ اور متوسط طبقہ سیاسی طور پر اہمیت اختیار کر گیا۔ اس کی وجہ سے سندھ میں ایک نوجوان کارکن ،ادیب اور شاعر کی حیثیت اور اہمیت وڈیرے سے زیادہ ہوگئی۔ اس کا عکس سماج میں مختلف مواقع پر نظر بھی آنے لگا۔ لیفٹ بھی نظر آنے لگا۔ کسانوں اور مزدوروں کی تحریکیں بھی اٹھنے لگیں۔ ان کی سرگرمی بھی نظر آنے لگی۔ سندھ میں ریڈیکلائزیشن بڑا۔ سوشلزم کا نعرہ نوجوانوں اور سیاسی کراکنوں میںایک مقبول نعرے کے طور پر ابھرا۔
لگ بھگ یہ صورتحال ملک بھر میں تھی۔ لیکن سندھ میں طلبہ، کسان اور مزدور زیادہ متحرک دکھائی دیئے۔ اس ساٹھ کے عشرے ن میں لیفٹ تحریک چین نواز اور ماسکو نواز کی بنیادوں پر دو ھصوں میں بٹ گئی۔

ون یونٹ ٹوٹاا اور اس کے کچھ عرصے بعد جب سندھ اسمبلی بنی تو سندھ کے اندرونی علاقے آئے ہوئے لوگ اور کراچی کے لوگ ایک دوسرے کے لئے اجنبی تھے اور عجیب محسوس ہونے لگے۔

 اس تحریک سے سیاسی ڈائنامکس تبدیل ہوا کہ پیپلزپارٹی وجود میں آئی۔ اس پارٹی نے نہ صرف اس نعرے کو بلکہ متحرک طبقات کو اپنی طرف کھینچا۔ اور اس پوری صورتحال کو کیش کیا۔ کمیونسٹ تحریک پر ایک تنقید یہ بھی ہے کہ اس نے اس نے اس بدلتی ہوئی صورتحال کا ادراک نہیں کیا۔براہ راست سوشلزم کا نعرہ دینے اور تنظیم کو اس طرف لے جانے کے بجائے اور خود کو قوم پرستوں سے بھی زیادہ قوم پرست ثابت کرنے کی کوشش کی۔ لہٰذا صرف نعرہ ہی نہیں بلکہ اسپیس اور کیڈر پیپلزپارٹی بہا لے گئی۔

بھٹو اپنی کرشماتی شخصیت، وسائل اور عملیت کی وجہ سے یہ تاثر دینے میں کامیاب ہوگئے کہ وہ متوسط طبقے کے ان مطالبات کو عملی طور پر ایڈریس کر سکتے ہیں ۔ بنگال میں فوجی کارروائی کے دوران صورتحال یہ تھی سندھ کی قوم پرست نہ موثر موقف اختیار کر سکے اور نہ ہی اسکا اظہار کر سکے۔ایک خیال یہ بھی ہے کہ شاید وہ اسٹبلشمنٹ کے پورے کھیل کو سمجھ بھی نہیں پا رہے تھے۔ ڈر کے عنصر کے ساتھ ساتھ یہ بھی عنصر موجود تھا کہ کیا واقعی بنگالیوں کی تحریک آزادی کامیاب ہو سکے گی؟ ۔سندھ سے نحیف سی آواز صرف اگر اٹھ رہی تھی تو وہ کمیونسٹوں کی تھی۔

 بھٹو کی پیپلزپارٹی:
اپنے پورے دور حکومت میں بھٹو اور قوم پرست دو الگ انتہائیں رہیں۔لیکن بھٹو نے متوسط طبقے اور اس کے مطالبات کو ایڈریس کرنے کی کوشش کی۔ تعلیم، ملازمتیں، دیہی علاقوں میں سہولیات، زبان اور ثقافت کے اشوز کو یا بڑی حدتک حل کیا یا پھر ڈی فیوز کیا۔ یوں سندھ میں قوم پرست اور لیفٹ کی تحریک جن بنیادوں پر کھڑی تھی اس کو بھٹو نے کمزور کردیا۔ لوگ بھٹو کو اپنے ساتھ کھڑا ہوا محسوس کر رہے تھے ۔ خود کو عوامی رنگ دینے کی کوشش کی۔
 جب 1973 کا آئین بنا تو جی ایم سید نے پارلیمانی سیاست سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا اور سندھو دیش کا نعرہ لگایا۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ اپسکتان کے ملکی ڈھانچے میں سندھ کو حقوق کا تحفظ ممکن نہیں ۔ لیکن بھٹو کی پالیسیوں کی وجہ سے یہ نعرہ بعض فکری حلقوں سے ہٹ کرعوامی سطح پر مقبولیت نہیں حاصل کر سکا ۔

 بھٹو کے نئے پاکستان کی بنیاد سندھ اور پنجاب کے اتحاد پر تھی۔ جس سے پنجاب اور۔ مہاجر اتحاد جو قیام پاکستان کے بعد قائم ہوا تھا، ٹوٹ گیا۔

ٓٓٓٓ ٓٓبھٹو دور میں پاکستان کی سیاست میں سندھ کا شیئر یا کلیم شروع ہوا۔ سندھ میں ٹپیکل پنجاب مخالف سیاست تھی اس میں بھٹو پل بنایا۔

 پاکستان قومی اتحاد کی تحریک
یہ سب معاملہ پاکستان قومی اتحاد کی نو ستاروں والی تحریک تک چلتا رہا۔ مسلم ممالک کو کٹھا کرنے، جوہری پروگرام اور مستقبل میں خطے میں پیدا ہونے والی صورتحال جو بعد میں افغان اشو ، ایران ی انقلاب کی شکل میںسامنے آئی۔ان کی وجہ سے امریکہ اورپاکستانی اسٹبلشمنٹ بھٹوکو رکاووٹ سمجھ رہے تھے۔ وہ اسلام آباد میں تبدیلی لانا چاہتے تھے۔اور انہوں پی این اے تحریک کے ذریعے یہ کیا۔ پی این اے اور بھٹو کے درمیان کامیاب مذاکرات کے باوجود ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور ضیاءالحق نے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا۔ جو اگلے دس سال تک رہا۔

 پاکستان بننے میں سندھ آگے آگے رہا لیکن پاکستان بننے کے بعد وسائل، اختیار، اقتدار، ملازمتوں اور نئے ملک کے دیگر ثمرات میں میں حصہ نہ ملنے کی وجہ سے سندھ ڈپریشن میں چلاگیا۔ بھٹو نے لوگوں کو اس سے نکالا۔ زرعی اصلاحات ، شگر ملیں، کوٹہ سسٹم ، اسوقت سندھ کے دیہی علاقوں کو فائدہ پہنچا۔ سندھ کے لوگوں کو بظاہر بھٹو کی دوسری کسی تحریک سے اختلاف نہیں ہوا۔ اس کے اثرات پی این اے کی تحریک میں بھی نظر آئے۔ ان چیزوں نے سندھ کے عوام کا بھٹو کے ساتھ بانڈ مضبوط کیا۔

 بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا اور بھٹو نے بڑی حد تک سندھ کے متوسط طبقے کو اکموڈیٹ کیا تھا۔ سندھ کے لوگوں کو اقتدار میں شمولیت کا احساس دلایا تھا۔قیام پاکستان کے بعد یہ پہلا موقعہ تھا کہ سندھ کے لوگوں میں حاکمیت کا احساس پیدا ہوا۔ اس لئے بھٹو کو ہٹانے سے سندھ کے لوگوں کولگا کہ ان سے کچھ چھن گیا ہے۔

بھٹو کو پھانسی کو سزائے موت سنانے کے بعد اور اس سزا پر عمل درآمد پر سندھ بھر میں احتجاج ہوتا رہا۔ یہ احتجاج کارکنان اپنی سطح پر اور اپنے طور پر کر ہے تھے۔ سوائے شروع کے چند ماہ کے جب بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو دورے کر رہی تھیں۔ اس کے بعد پیپلزپارٹی کی درمیانی قیادت غائب تھی۔

 ایم آرڈی تحریک
تیسری تحریک ایم آرڈی کی تھی جو جنرل ضیاءالحق کے مارشل لا کے خلاف چلائی گئی۔ ایم آرڈی کی اپیل ملک بھر میں تحریک چلانے کی تھی۔ لیکن اس نے صرف سندھ میں ہی زور پکڑا۔ یہ کہنے میں کوئی مبالغہ نہیں ہوگا کہ اس تحریک نے سندھ کے ہر گھر کو متاثر کیا۔ اسکول کی عمر کے بچے بھی گرفتار ہوئے۔ اس تحریک میں سندھ کی مذہبی، سیاسی اور بائیں بازو کی سب جماعتیں شامل تھیں ماسوائے جماعت اسلامی اور پیر پاگارا کے۔ یہ صحیح ہے کہ سائیں جی ایم سید اس تحریک کے حق میں نہیں تھے۔ لیکن قوم پرست کارکن بڑی تعداد میں اس تحریک کا حصہ بنے۔

 ہر پارٹی جو سندھ میں وجود رکھتی تھی اس کو ایم آرڈی تحریک میں حصہ لینا پڑا۔ جے یو آئی ، پلیجو کی عوامی تحریک، ل کمیونسٹ پارٹی ۔ لیفٹ کے دیگر چھوٹے گروپ، قوم پرستوں کے مختلف حلقے اس تحریک کا متحرک حصہ رہے۔ سند ھ میں یہ گلی گلی کی لڑائی یا حتجاج تھا۔ لوگوں نے سکرنڈ ،خیرپور ناتھن شاہ، میہڑ میںفوج سے ٹکر کھائی۔ یہ لوگ مسلح نہیں تھے۔ نہتے تھے۔اسکول اور کالج کے بچوں تک نے قید اور کوڑوں کی سزائیں کھائی۔درجنوں کی تعداد میں خواتین کو گرفتار کیا گیا۔

غلام مصطفیٰ جتوئی خاندان کی خواتین پہلی مرتبی باہر نکلیں۔ مختلف جماعتون اور گروہوں کے سیاسی کارکنوں کے آپس میں اور ایک دوسرے کی قیادت سے رابطے اور تعلق بڑھے۔ ریڈکلائزیشن بڑھی۔ جیل تربیت گاہیں بن گئیں۔ اس سے اشرافیہ اور خود تحریک چلانے والے بھی ڈر گئے کہ تحریک اب ان کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے۔ اور عوام کے ہاتھوں میں جارہی ہے۔ غلام مصطفیٰ جتوئی جو اس تحریک کے روح رواں بنے تھے وہ سینٹرل جیل کراچی کے ریسٹ ہاﺅس میں نظر بند تھے۔ جہاں ان کے مارشل لا ءحکام سے مذاکرات چل رہے تھے۔ محترمہ بینظیر بھٹو سینٹرل جیل میں قید تھیں انہیں کان میں تکلیف تھی۔ اچانک غلام مصطفیٰ جتوئی کا بیان آیا کہ” ماضی کی تلخیوں کو بھلا دو“۔یہ تحریک کے خاتمے کا اعلان تھا۔ اور وہ بیرون ملک چلے گئے۔ چند روز بعد محترمہ بھی علاج کے لئے بیرون ملک چلی گئی۔

 خطرے کی گھنٹی
ضیا کو یہی خوف رہا کہ اگر کچھ ردعمل سندھ ہی سے آنا ہے۔ سندھ کے لوگوں میں اینٹی اسٹبلشمنٹ سوچ آ گئی ہے۔ جب اس اظہار کا ایم آرڈی کی تحریک میں بھرپور اظہار ہوا۔ اسٹبلشمنٹ کو خطرے کی گھنٹی محسوس ہوئی۔ سندھ میں جس نچلی سطح پر سیاست، ایکٹوازم اور ریڈیکلائزیشن ہوئی تھی اس کو توڑنے کی ضرورت محسوس کی گئی۔ اور اس کے لئے ایک سے زائد طریقے اختیار کئے گئے۔
ایم آرڈی کی تحریک کے فورا بعد سندھ میں ڈاکو فیکٹر نمودار ہوا۔مارشل لا کے ہوتے ہوئے ڈاکو فیکٹر کا بڑھنا تعجب خیز تھا۔ اس کو ایم آرڈی تحریک سے جوڑنے کی بھی کوشش کی جاتی رہی۔ بعض قوم پرست گروپوں میں اسلح متعارف ہوا۔ اس فیکٹر بعد میں ڈاکو کے نام پر آپریشن کیا گیا، ادیبوں دانشوروں اور سیاسی کارکنوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔قانون نافذ کرنے والے لوگوں کے گھروں میں ڈاکو کے نام پر گھس جاتے تھے۔

یہ آپریشن اس وجہ سے بھی ضروری بن گیا کہ جس کی بھی کچے میں زمین تھی وہ حکومت کے ساتھ ہوا۔ ان میں نوشہروفیروز اور دادو کے جتوئی، شکارپور اورگھوٹکی کے مہر اور دیگر لوگ شامل تھے ۔مارشل لاءسے ان کے سیاسی اور معاشی مفادات تھے۔

 مذہبیت
 ضیا دور کے اسلامائیزیشن کے اثرات اس حد تک ہوا کہ سندھ میں پہلی بار منظم طریقے سے مدرسے کھلنا شروع ہوئے۔ اس کے اظہار کے طور پر سندھ یونیورسٹی جو اس سر زمین کی سیاست ، فکر اور سوچ کا س سرچشمہ سمجھی جاتی تھی وہاں باب الاسلام کے نام سے ٹاور بنایا گیا۔
 جے یو پی کا بریلوی مکتب فکر سے تعلق ہونے کی وجہسے سندھ میں صوفی کلچر کی موجود گی فکری حوالے سے گنجائش بنتی تھی۔ لیکن اس جماعت نے خود کو ووٹ کی سیاست کی وجہ سے صوبے کے دو بڑے شہروں تک محدودرکھا۔لہٰذا سندھ کی مقامی اور دیہی آبادی اس سے دور رہی۔ 80 کے عشرے میں اسکو سیاسی لحاظ سے ایم کیو ایم نے اور مذہبی حوالے سے دیوبندی مکتب فکر کے نام سے کام کرنے والی گرپوں نے replace کردیا۔

جماعت اسلامی مذہبی جماعت ہونے کے باوجود صوبے کے دو بڑے شہروں میں ہی کام کر رہی تھی اسکا محور بھی ہر پنجاب بیسڈ پارٹی کی طرح سندھ کے شہر تھے، جہاں پر بھارت سے منتقل ہو کر پاکستان میں آباد ہونے والے لوگ تھے۔ اس وجہ سے اس کی شناخت بھی مذہبی اور مہاجر وں کی پارٹی کی طرح رہی۔ اس بات نے جماعت اسلامی کو اندرون سندھ اپنی تنظیم کاری میں دقت پیش آئی۔ جماعت کو بھی جے یو پی کی طرح کے مسائل پیش آئے۔

سندھ مذہبی اور عقیدے کے حوالے سے رواداری کی سرزمین رہی ہے جسے انتہاپسندی نہ ہونے کی وجہ سے صوفیوں کی دھرتی کا نام دیا جاتا ہے۔ سندھ کی صرف اتنی ہی خصوصیات نہیں۔ سندھ میں پچاس کے عشرے میں جو بڑے پیمانے پر بٹئی تحریک، الاٹی تحریک اور سندھ ٹیننسی ایکٹ کی تحریکیں چلیں اور کامیابیاں حاصل کیں ۔ اس ہاری تحریک کے رہنماﺅں کامریڈ نذیر جتوئی، عزیزاللہ جروار، کامریڈ رمضان شیخ، مولانا ہالیجوی ، مولانا عبدالحق ربانی اور دیگرحضرات دیوبند کے سند یافتہ علماء تھے اور سرخے مولوی کہلانے والے یہ حضرات ہمیشہ ترقی پسند اور تحریک کا حصہ اور قوم پرست تحریک کے حامی رہے۔ کھڈہ مدرسہ کراچی کے علماءکا اس حوالے سے خاص کردار رہا ۔

بعد میںپرانے علماءکی یہ کھیپ مر کھپ گئی۔ جمیعت علمائے اسلام جو دراصل جمیعت علمائے ہند کا حصہ تھی اس نے خود کو اپنے بنیادی فکر سے دور کیا۔ ضیاءالحق نے افغان جنگ کے حوالے سے اس مکتب فکر کو استعمال کیا۔ اور اس طرح کی انتہا پسندی کی لائین اختیار کی کہ ان کا ایک دھڑا آگے چل کر مولانا سمیع الحق کی قیادت میں طلباءکا ”باوا“ بنا۔

جے یو آئی کی قیادت پر سیکولر اثرات کم ہوتے گئے۔ کھڈہ کراچی کے روشن خیال اور رواداری رکھنے والے علماءنے علحدگی نے جے یو آئی سے علحدگی اختیار کر لی۔ پرانے فکر کے لوگ مر کھپ گئے۔ اب نئے مدرسوں سے قیادت آرہی تھی۔ الازہریونیورسٹی سے فارغ التحصیل ان کی جگہ لے رہے تھے۔اب ان کو ریشمی رومال تحریک یاد نہیں۔ سمیع الحق، افغان جنگ میں جے یو آئی فریق بنی۔

پاگار ا فیکٹر
 سندھ میں ساٹھ کے عشرے تک جوسیاسی رجحانات پروان چڑھ رہے تھے۔ان میں ایک بھٹو فیکٹر، دوسرا جی ایم سید کی قوم پرستی اور تیسری لیفٹ کی سوچ تھی۔ اس وقت پیر پاگارا کسی حساب میں ہی نہیں تھے ۔ 1970 کے انتخابات میں بھی پیرپاگارا کی سیاسی طور پر یہی صورتحال رہی۔ مستقبل میں صورتحال کچھ یوں بن رہی تھی کہ پیپلزپارٹی، قوم پرست اور ترقی پسند ایک دوسرے کے compititors بن رہے تھے یا سیاسی جوڑ توڑ میں ایک دوسرے کے اتحادی یا مخالف بن رہے تھے ۔ 70 کے بعد پیر پاگارا سے اسٹبلشمنٹ کی انڈر اسٹینڈنگ بنی۔ بھٹو کو جی ایم سید نے ری پلیس نہیں کیا بلکہ پاگارا نے کیا۔ہم دیکھتے ہیں کہ بھٹو کے خلاف بننے والے اتحاد پی این اے میں بھی پیر پاگارا کوابتدائی طور پر سرکردہ کردار دیا گیا۔ آگے چل کرپیر پاگارا کے کہنے پر جنرل ضیا نے محمد خان جونیجو کووزیر اعظم بنایا گیا۔ سندھ میں بھٹو کے بعد پاگارا کو بڑا لیڈر یا نمائندہ بنانے کی کوشش کی گئی۔

ایم رڈی کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے نئی سیاسی حکمت عملی بنائی گئی۔ ڈی فیوز کرنے کے لئے غیر سیاسی جماعتی انتخابات کرائے۔ کچھ وڈیرے پارٹی چھوڑ کر چلے گئے۔۔ پیپلزپارٹی نے غیرجماعتی انتخابات کا بائکات کیا، جس کا نقصان ہوا اس کا اعتراف خود بینظیر نے بھی کیا کہ بائکاٹ کر کے غلطی کی ہے۔ جنرل ضیاء نے ان کو اپنے ساتھ جوڑے کھنے کے لئے ملازمتوں کی کوٹہ اور ترقیاتی فنڈز دیئے گئے۔ یوں سرکاری سطح پر اور بڑے پیمانے پر سیاست میں کرپشن کا آغاز کھلے عام ہو گیا۔

اسکے اثرات یہ ہوئے کہ آگے چل کر بینظیر سمیت بعد میں آنے والی تمام حکومتوں کو کو بھی اس پالیسی کو جاری رکھنا پڑا۔

 غیر جماعتی انتخابات اوراشرافیہ کی نئی سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے یہاں سے نئے پاور بروکرز متعارف ہوئے۔

جونیجو دور میں اسکول کھلے، ملازمتیں ملیں۔ترقیاتی کام بھی ہوئے۔زیادہ تر ترقیاتی کام نچلی سطح پر کرائے گئے تاکہ لوگ دیکھ سکیں اور اس کا فوری فائدہ محسوس کریں ۔ 85 کی اسمبلی میں سب کے سب غیر سیاسی نہیں تھے۔ وہ بھی تھے جو سیاست کا اچھا خاصا تجربہ رکھتے تھے۔ لوگوں کو کرپٹ کرنے کے لئے فنڈز، ملازمتوں میں کوٹہ اور دیگر مراعات ملنے لگیں ۔ جب یہ لوگ اکموڈیٹ ہونے لگے تو غلام مصطفیٰ جتوئی اور بعد میں میر ہزار خان بجارانی وغیرہ نے پیپلزپارٹی چھوڑ دی۔

جونیجو نے جینیوا معاہدہ سمیت جب سیاسی اثرات دکھانے کی کوشش کی تو انہیں گھر بھیج دیا گیا۔
88ع کے انتخابات میں ایک بار پھر لوگوں نےاپنی رائے کا بھرپور اظہار کیا۔ پاگارا، غلام مصطفیٰ جتوئی جیسے بڑے بڑے بت گرا دیئے گئے۔

 بینظیر دور میں ملازمتوں کے دروازے کھل گئے۔ کمیشن کو بائی پاس کر کے ملازمتیں دی گئیں۔ اس دور کی ایک یہ بھی خصوصیت ہے کہ
سیاسی خاندانوں کی بیوروکریسی میں شمولیت ہوئی۔آج سندھ میں بعض اہم سیاسی خاندان بشمول ہالہ کی مخدوم فیمیلی، وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ، گھوٹکی کے بااثر شخصیات کی فیملی کے افراد سرکاری ملازمتوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں۔

جونیجو دور میں ہی سندھی مہاجر تضاد بڑھا۔ تیس ستمبر کا حیدرآباد کا سانحہ اور اسکے جواب میں کراچی کا سانحہ صرف انتخابات ملتوی کرانے کے لئے نہیں تھا بلکہ سندھ کی آبادی کو مستقل بنیادوں پر تقسیم کرنے کا فارمولا بھی تھا۔ اسٹبلشمنت کی جانب سے مہاجرقیادت کو یہ ذہن میں ڈالا گیا کہ واپس پیپلزپارٹی اقتدار میں آرہی ہے۔اس کے تور کے لئے ایم کیو ایم کو پروموٹ کیا۔

سندھی مہاجر تضادبعد میں حکومت کو ٹربل میں رکھنے اور جمہوری عمل کو عدم استحکام میں رکھنے کے لئے جاری رکھا گیا۔سندھ کی دو کمیونٹیز دیہی اور شہری کا آپس میں ٹکراﺅ کسی بھی طور ان کے مفاد میں نہیں تھا۔اس دراڑ کی وجہ سے سندھ کا متحدہ موقف ختم ہو چکا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو اسپیس بنا وہ باہر کی آبادی نے پر کیا۔ایم کیو ایم کو اگرچہ احساس ہوا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی تھی۔

 نوے کے عشرے کا یہ بھی المیہ ہے کہ اس میں کمیونسٹ پارٹی جو سیاسی کارکنوں کے نزدیک رول ماڈل تھی وہ دو حصوں میں بٹ گئی۔ انقلاب کے ساتھ رومانس کا سلسلہ ختم ہو گیا۔ سندھ میں کمیونسٹ تحریک جو بنگال کے بعد کبھی ملک بھر میں مثالی اور مضبوط سمجھی جاتی تھی وہ دم توڑنے لگی۔ سینکڑوں کی تعداد میں اس کا کیڈر پہلے گومگو کی حالت میں رہا۔ بعض مایوس ہو کر بیٹھ گئے کچھ مین اسٹریم کی سیاست کی طرف گئے۔ یہ توڑ پھوڑ سیاسی طور پر سندھ کا اتنا بڑا نقصان تھا جس کا ازالہ آنے والے وقتوں میں شاید ہی ہو سکے۔

جام صادق فارمولا :
پانی کا معاہدہ، مردم شماری ، نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ جیسے بعض امور جن کا تعلق بین الصوبائی تھا۔ ان کا فیصلہ کرنا پیپلزپارٹی کے بس میں نہیں تھا۔ وہ نہ پنجاب کو ناراض کرنا چاہتی تھی اور نہ سندھ میں اپنی مقبولیت کو کم کرنا چاہتی تھی ۔ پنجاب میں نواز شریف جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگا رہا تھا۔ ایسے میں دیگر پیپلزپارٹی مخالف قوتیں بھی سرگرم ہو گئیں ۔ اور بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کردی گئی۔

 نواز شریف کا دوسرا دور حکومت جاگ پنجابی جاگ کا نعرہ لگایا۔انہیں پنجاب میں فائدہ ضرور ہوا لیکن سندھ میںانہوں نے خود کو تنہا کردیا۔ یہ نعرہ یہاں پرپیپلزپارٹی کے لئے فائدہ مند ہوا۔ پیپلزپارٹی پر قوم پرست جماعت قرار دے دی گئی۔ سندھ میں اکیلی نشست رکھنے والے جام صادق علی کو وزیراعلیٰ مقرر کردیا گیا ۔ اس نے اسٹبلشمنٹ کی حمایت اور ڈنڈے کے زور پر اکثریت حاصل کرلی۔ یہ نیا فارمولا تھا کہ کس طرح سے مقبول سیاسی جماعت کو اقتدار سے دور رکھا جائے۔ اس فارمولے پر بعد میں گاہے بہ گاہے عمل ہوتا رہا۔
مظفر حسین شاہ، لیاقت جتوئی، علی محمد مہر اور ارباب غلام رحیم اسی فارمولے کے تحت وزیراعلیٰ بنے۔ یاد رہے کہ بغیر پیپلزلپارٹی کے سندھ میں جو بھی سیٹ اپ بنے ان سب کو پیر پاگارا کی آشیرواد حاصل رہی ۔

 افغان جنگ کے منفی اثرات ملک بھر میں پڑے۔ سندھ میں اضافی اثر یہ پڑا کہ سندھ کے دارالحکومت کراچی کے ساتھ سا تھ کو ٹری اور عمرکوٹ جیسے چھوٹے شہروں میں بھی افغان پناہ گزین آکر آباد ہوئے۔ اس کی وجہ سے مجموعی طور پر صوبے کے مختلف علاقوں کا مزاج جو پہلے کبھی سافٹ ہوا کرتا تھا، وہ اب ہارڈ ہو گیا۔ صوبے کے دو بڑے شہروں خاص طور پر کراچی میں ریاستی اداروں کی پشت پناہی کی وجہ سے افغانیوں اور دیگر غیر قانونی تارکین وطن کے لئے دروازے کھلے رہے، لیکن اندرون سندھ سے آنے والے لوگوں کو متحدہ اور دیگر گروپوں کی جانب سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کا بڑا اظہار 2010 اور 2011 کے سیلابوں کے موقعہ پر دیکھنے میں آیا۔ یوں سندھ کا بے گھر اور بے روزگار ہونے والا کسان اپنے صوبے کے دارلحکومت اور صنعتی شہر میں روزگار ڈھونڈنے یا بسنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اس کے کراچی کی ڈیموگرافی، سماجیت ، سیاست کے علاوہ دیہی معیشت اور کسان جو مزدور طبقے میں شامل ہو سکتا تھا اس پر بھی اثرات پڑے۔

 مشرف دور کے بلدیاتی نظام اور طرز حکمرانی نے سندھ میں قبائلی سسٹم کو نئی جان دے دی۔ ایک بار پھر سندھ جو ساٹھ اور ستر کے عشرے میں سیاسی طور پر شعور حاصل کر چکا تھا، سماجی طور پر واپس قبائلی سسٹم میں دھکیل دیا گیا۔ اس کے صوبے کی سیاست، سماجیت اور معیشت پر اثرات پڑے ، اس کے ساتھ ساتھ امن و مان کا مسئلہ بھی شدید تر ہو گیا۔ سندھی سوسائٹی کو متحد ہونے میں ایک اور رکاوٹ کھڑی ہوگئی۔بڑے وڈیروں کو ان کے اضلاع ففڈم کے طور پر مل گئے۔ سیاسی کارکن ، متوسط طبقے اور کسان کی حالت اور اثر رسوخ اور طاقت مزید کمزور ہوگئی۔

سندھی اربن مڈل کلاس کا ظہور اور اس کے اظہار :
 قیام پاکستان کے بعد جو اسپیس خالی ہوا تھا اس نے ساٹھ سال کے بعد ایک شکل اختیار کی۔ ملازم پیشہ اور ابھرتا ہوئے سندھی اربن کلاس کلاس کے تقرر تبادلے، ٹھیکہ وغیرہ کے مفاد ات ہیں۔ اس لئے وہ اپنا سیاسی نقطہ نظر بیان نہیں کر رہا۔ اگرچہ اس کا سیاسی حوالے سے دہرا کردار ہے جو مڈل کلاس کا خاصہ وہتا ہے لیکن اس طبقے نے دو کام کئے شہروں میں گھر بنائے۔ اور بچوں کو بہتر تعلیم دلائی۔ سکھر وغیرہ میں بچے پہنچے ہیں ایک نئی کھیپ آرہی ہے جس سے مڈل کلاس کا سائیز اور بڑھے گا۔

سندھ میں اب بڑی تعداد میں اربن مڈل کلاس پیدا ہو چکا ہے ۔ سرکاری خواہ نجی اداروں میں ملازمتوں اور چھوٹے موٹے کاروبار میں موجود ہے۔ کاروبار کرنے والے وہ لوگ ہیں جو بھٹو دور اور بینظیر دور میں بھرتی ہوئے تھے اب ریٹائر ہیں۔ مشرف دور میں ملازمتوں پر پابندی کی وجہ سے پرائیویٹ جاب کی طرف رجحان بڑھا۔ دیہات سے آنے والے اب شہروں میں آکر رکشہ، چلانا ٹھیلہ لگانے اور دوسرےاس طرح کے چھوٹے موٹے کام کرنے لگے ہیں اب یہ لوگ کسی وڈیرے کے اثر میں نہیں۔

سیلاب کی وجہ سے یا پھر لوگ تعلیم اور صحت کی سہولیات کی لئے شہروں کا رخ کیا۔ برادری اور قبیلے سے نکلے شہروں میں دکانداری یا دوسرے خود ملازمت والے کاموں میں آئے۔

 طلبہ سیاست
 سندھ میں اب طلبہ سیاست تقریبا ختم ہو چکی ہے۔ سندھ کی یونیورسٹیاں کبھی قوم پرست سیاست کے لئے آکسیجن ہوا کرتی تھیں۔ اب سیاسی جماعتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنے کے لئے شہری علاقوں میں ایک ایسا حلقہ دستیاب ہے جو کسی جلسے جلوس اور مظاہرے وغیرہ میں کام آ جاتا ہے۔ طلبہ سیاست کے ویسے بھی سو بکھیڑے ہیں۔ لہٰذا لگتا ہے کہ سیاسی جماعتیں طلبہ سیاست سے عملا دستبردار ہو گئی ہیں۔ جو گروپ طلبہ میں سرگرم ہیں وہ عموما اپنی مدر آرگنائزیشن کے ڈسپلین میں نہیں۔ بس دونوں فریق ایک دوسرے کا نام استعمال کر کے فائدہ لے رہے ہیں ۔

ضیاءدور کے بعد جو اشوز سندھ کی سیاست کا محور رہے ہیں ان میں میں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا معاملہ زیادہ وزنی ہے۔ جونیجو دور میں سندھ اسمبلی نے پہلی مرتبہ اس آبی ذخیرے کے خلاف قرارداد منظور کی۔اس کے بعد کم از کم دو مرتبہ صوبائی اسمبلی اس کو مسترد کر چکی ہے۔ جنرل مشرف تمام تر زور لگانے کے باوجود سندھ اسمبلی سے یہ قرارداد منظور نہیں کرا سکے۔ اس متنازع ڈیم کے خلاف پیپلزپارٹی اور قوم پرست اتحاد میں بھی رہے ہیں۔ نواز شریف کے دوسرے دور حکومت میں بینظیر بھٹو زیر قیادت میں سندھ کے تمام پارٹیوں نے بشمول قوم پرست جماعتوں کے، سندھ پنجاب بارڈر پر کموں شہید کے مقام پر تاریخی دھرنا دیا تھا۔

مذہبی فکر اور مدرسوں کا اس انداز میں پھلاﺅ نوے کی دہائی کے بعد ہوا۔ خاص طور پر مشرف دور میں ۔ اس کے نیتجے میں صوبے کے چھوٹے چھوٹے گاﺅں تک یہاں تک کہ تھر کے دور دراز علاقے میں بھی مدرسے پہنچ گئے ہیں ۔ یہ مدرسے قائم کرنے والوں کا تعلق سندھ سے نہیں ۔ ان مدارس کے منتظمین یا مالکان کا تعلق پنجاب سے ہے۔

خواتین اور اقلیتیں
بینظیر بھٹو نے خواتین کو آگے لے آئیں۔ اس سیاسی عمل میںدرجنوں خواتین سیاسی جدوجہد کی وجہ سے اسمبلیوں تک پہنچیں۔ لیکن اب اقلیتوں اور خواتین کو مین اسٹریم کا حصہ نہیں بنایا گیاان کی کوٹہ معذوروں کی طرح کوٹہ مقرر ہو گئی ہے۔

 شدت پسندی
شدت پسندی مذہبی طور پر اور دوسری جقوم پرست تحریک میں بھی آئی ۔ آزادی کا نعرہ تو پرانا ہے ۔لیکن اس میں اب ملیٹنیسی کا ٹرینڈ آیا ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ اس پرقوم پرست شدت پسندی پر اسٹبلشمنٹ نے ری ایکٹ اسی طرح کیا جس طرح بلوچستان میں کیا۔ لاشیں ملتی ہیں کارکن لاپتہ ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ انہوںنے کوئی بڑی کارروائی نہیں کی ہوئی ہوتی ہے۔

 سیاسی کارکنوں کی عام لوگوں تک رسائی
نوے کے عشرے کے بعد واقعات اور حالات کی وجہ سے سیاست میں ترقی پسند فکر بہت ہی سکڑ گیا۔اس کے ساتھ وہ حلقہ بھی سکڑ گیا جو تبدیلی کا خواہشمند تھا۔

خدمت اور تبدیلی کی جدوجہد کرنے والاسیاسی کارکن ختم گیا۔ نیا کارکن وہ ہے جو کرپٹ ہے یا اس کا ایجنڈا تبدیلی یا خدمت نہیں بلکہ اس پروسیس سے ذاتی مفادات حاصل کرنا ہے۔ ایک بار پھر وڈیرہ اور بااثر شخصیات مضبوط ہوگئیں۔ بلدیاتی انتخابات میں نہ ایم پی اے نہ ایم این اے ، وہ یو سی کا ناظم بھی نہیں بن سکتا۔

کبھی سیاسی کارکن خواہ ہو ترقی پسند تحریک سے وابستہ ہوتے تھے یا قوم پرست ۔ وہ دیہاتوں میں باقاعدگی سے جاتے تھے۔ عام لوگوں سے کسانوں سے ملتے تھے۔ روز مرہ کے امور اور واقعات پر بات چیت کرتے تھے۔اس سے عام لوگوں کا سیاسی خواہ عام زندگی کے بارے میں روشن خیال نقطہ نظر بنتا تھا۔ کم از کم دو تین دہائیوں سے یہ عمل رک گیا ہے۔ اس اسپیس کا ملاں فائدہ اٹھایا ہے۔اب وہ سندھ کے ہر گوٹھ میں موجود ہے۔ مدرسوں کا جال بچھ چکا ہے۔ یہ ملاں اپنی تقاریر اور واعظ میں گورننس کے بھی اشو اٹھا کرلوگوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہا ہے۔ان کی فکر اور سوچ کو ایک مخصوص کفر کی طرف لے جارہا ہے۔ لوگوں اس سوچ میں بھی ڈال رہا ہے کہ ان مسائل کا حل ان کے پاس ہے۔
سندھ میں ایک عرصے تک دو نصاب چلتے تھے۔ ایک وہ نصاب جو سرکاری طور پر اسکولوں اور دیگر تعلیمی اداروں میں پڑھایا جاتا تھا۔ دوسرا وہ جو ترقی پسند اور قوم پرست گروپ اپنے اسٹڈی سرکلز، باقاعدگی سے دیہات کے دوروں ، ادبی و ثقافتی سرگرمیوں وغیرہ کے ذریعے پڑھایا کرتے تھے۔ یہ دوسرا نصاب ساٹھ کے عشرے سے لیکر اس صدی کے خاتمے تک بھاری رہا۔ لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے۔

 پیپلزپارٹی سے امیدیں زیادہ تھیں جسے موقعہ بھی ملا لیکن یہ بد ترین ثابت ہوا ہے۔
 تمام پارٹیوں نے ان کی طرف رجوع کیا ہے جن کا قبیلہ ہے برادری ہے ۔ پی پی ، نواز لیگ اور تحریک انصاف کو بھی ایسے ہی لوگوں کی تلاش
 ہے۔

 قوم پرست متبادل دینے میں ناکام رہے ہیں جبکہ ان کے کاﺅنٹر پارٹس بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں حکومت میں آچکے ہیں۔ ان کا آپس میں اتحاد نہیں اور صلاحیت بھی نہیں۔ سندھ کے جذبات کو جب ٹھنڈا کرنے کی ضرورت پڑتی ہے تو اقتدار پیپلزپارٹی کو دے دیا جاتا ہے۔ سندھ کے لوگوں کی کشتی ایک جھیل میں پھنسی ہوئی ہے اسی میں چکر کاٹتی رہتی ہے۔

 جب بھی سندھ سے کچھ چھینا گیا تو لوگوں کو سیاسی رشوت کے طور پر مختلف چیزیں دینے اور ان کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ظاہر ہے کہ ایسے میں متوسط طبقہ اور اس کی موقعہ پرستی آگے آگے ہوتی ہے۔ زمینوں پر قبضے جام صادق کے بعد کی پیداوار ہیں۔ یہ سلسلہ بعد میں بھی چلتا رہا۔ جو اب عروج پر ہے۔

 یہاں ایم آرڈی آخری تحریک تھی جس نے بڑے پیمانے پر کارکن پیدا کئے ۔ جس کو بھی اب پینتیس سال ہونے کو آئے ہیں۔ اس تحریک میں ھصہ لینے والا اس وقت پندرہ سے تیس سال کی عمر کا تھا۔ اب وہ بوڑھا ہو چکا ہے ۔ تھک چکا ہے۔ یا وقت کے ساتھ مین اسٹریم سیاست کا حصہ بن کر موقعہ پرستی کا شکار ہو گیا ہے۔

فکری تبدیلی اصطلاحوں اور ان کی معنی تبدیل ہوگئے۔ ان میں 180 ڈگری کا فرق فرق آیا۔ پچاس کے عشرے سے لیکراسی کی دہائی تک کامریڈ ایک قابل تعریف اور قابل احترام لفظ تھا۔ لیکن بعد میں اس کی معنی بھتہ خور اور غنڈہ کی ہوگئیں۔ سیاست کا مطلب لوگوں کی خدمت کرنا تھا۔ لیکن بعد میں اس کی معنی چالبازی اور دھوکہ ہو گئیں۔

 کالاباغ ڈیم، پانی کی منصفانہ تقسیم، این ایف سی ایوارڈ ، وفاقی ملازمتیں، تیل،گیس اور معدنی وسائل، نج کاری، مردم شماری ، واپڈا کے ساتھ سندھ کا تنازع، ریلوے اور اس کی زمینیں، بندرگاہ، پر پنجاب کی بالادستی محسوس کی جاتی ہے۔ ان پر حکومتی خواہ سیاسی سطح پر وقتا فوقتا اٹھایا جاتارہا ہے۔ آئین کے مطابق ان معاملات کو مشترکہ مفادات کی کونسل دیکھے گی۔ مشرف اور بیظیر بھٹو کے دور میں کونسل کا ایک بھی اجلاس نہیں بلایا جا سکا۔

 طلبہ تحریک کی طرح سندھ میں اس وقت نہ کسان تحریک ہے اور نہ مزدور تحریک۔ لہٰذا یہ دونوں طبقات کسی سیاسی پارٹی کے ایجنڈا کا حصہ بھی نہیں ۔ کسانوں اور مزدوروں کے مسائل شدید تر ہوتے جارہے ہیں۔ اکادکا گروپ کام کرنے کی کوشش کر بھی رہا ہے ، لیکن ان کی نہ capacity ہے اور نہ ہی کوئی بڑا ویزن۔

 تیل گیس، معدنی وسائل اور بندرگاہیں موجود ہیں۔ اس کے باوجود بدترین حکمرانی ٹوٹی ہوئی ہیں۔ غربت کا نظارہ گزشتہ دو سیلابوں
 میں پوری دنیا نے کیا جب صوبے کے دور دراز علاقوں سے لوگ سڑک کنارے جھگیاں ڈال کر بیٹھے۔ جن میں سے اکثر کی واپسی اور آبادکاری نہیں ہو سکی ہے۔

گزشتہ بیس سال کے دوران بڑے پیمانے پر اربنائزیشن ہوئی ہے۔ نئے شہر بنے ہیں۔ چھوٹے شہر بڑے ہوئے ہیں۔ اور بڑے شہروں میں بڑٰ تعداد میں پہنچا ہے۔ دولپمنٹ سیکٹر میں خاصی موجودگی کی وجہ سے کچھ صلاحیتین کچھ اہلیتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
 چھوٹی زمیندار جو سرکاری زبان میں پروگریسو زمیندار کہلاتے ہین اس میں اضافہ ہوا ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جو نیم اربن اور نیم دیہی ہیں جن کا اپنا سماجی اثر رسوخ بھی ہے اور ایک حد تک مالی وسائل بھی۔

اختتامیہ
سندھ کے پاس اب پہلے والا متوسط طبقہ نہیں جس کو صرف ملازمت چاہئے۔ یا سرکاری ٹیلیویزن پر سندھ پروگرام کا وقت بڑھانے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اب اس کے پاس ایسا بھی طبقہ ہے جس کی capacity built ہوئی ہے۔ ایسا بھی ہے جس نے ملازمتوں کے دوران جائز اور ناجائز فوائد حاصل کر کے اپنی معاشی اور مالی پوزیشن کو بتدیل کیا ہے۔ اورسے ریٹائر ہونے کے بعد کاروبار وغیرہ کیا ہے۔ ایک مختلف قسم کا اربن مڈل کلاس وجود میں آیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بڑے پیمانے پر غریب کسان نے بھی شہر کا رخ کیا ہے۔

صوبہ بدترین خراب حکمرانی کے دور سے گزر رہا ہے۔ سندھ کی مقبول جماعت اور عوام کے درمیان گیپ بڑھ گیا ہے۔بائیں بازو کے ”بوڑھے کارکن “ کچھ عمل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ وہ خود میں اتنی سکت نہیں پاتے یا تھک چکے ہیں یا پھر کسی کرشمے کے انتظار میں ہیں۔ یہی صورتحال قوم پرست حلقوں کی ہے۔
 بائیں بازو اور قوم پرستوں نے جو اسپیس چھوڑا اس کی جگہ مولوی لے رہے ہیں۔ یہ مولوی صرف مذہبی نہیں بلکہ منظم سیاسی ایجنڈا رکھنے والی تحاریک کا حصہ ہیں ۔ انتہا پسندی، عدم برداشت تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ سندھ ایک نئے چیلینجوں کی طرف بڑھ رہا ہے۔






Labels:

آصف زرداريءَ جي آمد ۽ پيپلز پارٽيءَ جي مستقبل واري سياست

سهيل سانگي

           18 مهينا خود ساخته جلاوطني ڪاٽڻ بعد پيپلز پارٽي جي ”وڏي“ جي وطن واپسي تي رڳو پيپلز پارٽي ئي خوش ناهي، بلڪه وزيراعظم نواز شريف به خوش آهي. وزيراعظم ڪالهه ڏوراپو به ڏنو ۽ چيو ته، جيتوڻيڪ پيپلز پارٽي سندس حڪومت کي ٻه ڀيرا جهٽڪو ڏنو، پر هو زرداري جي واپسيءَ تي خوش آهي. کيس پارٽيءَ جا معاملا پنهنجي هٿن ۾ وٺڻ گهرجن. ٻنهي ڌرين جي خوشيءَ جا سبب هڪ ٻئي کان مختلف ۽ ٽڪراءَ ۾ آهن، ڇاڪاڻ جو پيپلز پارٽي جي ڪارڪنن ۽ رهنمائن جو خيال آهي ته هو نواز شريف کي ٽف ٽائم ڏيندا. سندس موجودگي سبب ايندڙ اليڪشن ۾ پيپلز پارٽي جي ڪاميابي ۽ حڪومت ۾ اچڻ يقيني ٿي ويندو. نواز شريف وري ان ڪري خوش آهي ته عمران خان کي منهن ڏيڻ لاءِ ڪا ڌر موجود هوندي، ڇو ته عمران پنجاب ۾ کيس سوڙهو ڪري رهيو آهي. نواز شريف کي پنجاب ۾ پيپلز پارٽي جا ووٽ ساريل آهن. اليڪشني حڪمت عملي موجب جيڪڏهن اينٽي نوازشريف ووٽ ٻن حصن يعني پيپلز پارٽي ۽ تحريڪ انصاف ۾ ورهائجي ٿو ته کيس ڪو لهر نه ڪو لوڏو. ائين جي ٽي روڊ تي ٿيندڙ سياست ۾ هو پاڻ کي سوڀارو سمجهي رهيو آهي.
ڏيڍ سال کن اڳ جڏهن رينجرز ۽ عسڪري ادارن ايم ڪيو ايم سان گڏ پيپلز پارٽي ۾ به ڪرپشن وغيره جي حوالي سان هٿ وڌا ته هن ”اينٽ سي اينٽ بجا دونگا“ واري تقرير اسلام آباد ۾ پارٽي ڪارڪنن جي ڪنوينشن ۾ ڪئي ۽ چتاءُ ڏنو ته جيڪڏهن عسڪري ڌر ائين ڪيو ته اسين 47ع کان پوءِ جرنيلن جيڪي ڪيو، اهو چِٺو به عوام آڏو آڻينداسين. ان بعد هو پرڏيهه هليو ويو. سندس وطن واپسي تڏهن ٿي آهي، جڏهن جنرل راحيل شريف ريٽائر ٿي چڪو آهي ۽ فوج جي نئين سربراهه ڪمانڊ سنڀالي آهي. اهو تاثر عام آهي ته هاڻي حالتون تبديل ٿيون آهن. پاڪستان آصف زرداري جو وطن آهي، جتي اچڻ ۽ رهڻ سندس حق آهي پر جنهن تتل صورتحال ۾ هو پرڏيهه ويو ۽ هاڻي وري موٽي آيو آهي. ان ڪري ڪجهه سوال ضرور اڀرن ٿا. جيستائين پارٽي کي هلائڻ جو تعلق آهي ته هو دبئي مان ويهي پارٽِي ۽ سنڌ حڪومت ٻئي ڏاڍي مزي سان هلائي رهيو هو. پارٽي ۽ سندس حڪومت تي سندس اوترو ئي ڪنٽرول هو، جيترو ملڪ اندر سندس موجودگي جي صورت ۾ هجي ها. پرڏيهه ۾ رهندي هن ڪيترائي اهم فيصلا ڪيا. سنڌ ۾ ذوالفقار علي ڀٽي جي ساٿي سائين قائم علي شاهه کي وڏ وزارت ۽ پارٽي جي صوبائي صدارت تان هٽائڻ جهڙا فيصلا به ڪيا. ساڳي طرح آزاد ڪشمير ۾ چونڊن، عمران خان سان پاناما ليڪس تي ڪجهه هفتا پارٽي کي هني مون جي اجازت ڏيڻ ۽ پنجاب ۾ پيپلز پارٽي جي نئين سر تنظيم سازي جا فيصلا ڪيا. انهن مان ڪي فيصلا پارٽي جي چيئرمين بلاول ڀٽو جي کاتي ڳڻيا وڃن ٿا. پر اهي سمورا فيصلا ”وڏي“ جي منظوري ۽ هدايت تي ئي ٿيا. احتجاج ۾ رڌل عمران خان کي ڪيئن ڊيل ڪجي، اهو به فيصلو دبئي مان آيو. اعتزاز احسن، خورشيد شاهه ۽ رضا رباني سميت سمورا فنڪشنريز طور ڪم ڪري رهيا هئا.
سنڌ بابت کيس ڪو الڪو ڪونهي، ڇاڪاڻ جو اتي اپوزيشن نان فنڪشنل آهي. ايم ڪيو ايم پنهنجي خفي ۾ آهي. فنڪشنل ليگ مان گهڻا پکي اڏامي رهيا آهن. هن صوبي ۾ وڏيري وڏيري جي ذات پارٽي ۾ اچي گڏ ٿي آهي، ان ڪري هتي چونڊن جو منظرنامو 2013ع کان به وڌيڪ اڳتي هليو ويندو. جيستائين سنڌ ۾ ڪجهه ڪم ڪرڻ ۽ ماڻهن کي ڪجهه ڏيڻ جو سوال آهي ته، اهو نه پارٽي جي ايجنڊا لڳي ٿي ۽ نه وري نيت. پارٽي عام ڀلي جي ڪا رٿا عمل ۾ آڻڻ بدران ماڻهن جي ذاتي ڀلي جو رستو ڳوليو آهي. 50 هزار نوڪرين جي ديڳ به ان لاءِ چاڙهي پئي وڃي. اها ٻي ڳالهه آهي ته ان ديڳ مان چار چانور حقدارن کي به ملندا يا نه؟ گهڻو امڪان اهو آهي ته اهي نوڪريون به ورهايون وينديون. ترقياتي ڪم ڪيترن کاتن ۾ ٻڙي برابر آهن. هڪ ته اڌو اڌ بجيٽ خرچ ئي نه پئي ٿئي ۽ جيڪا ٿئي ٿي، ان لاءِ وري ڪرپشن جون شڪايتون آهن. سينيئر بيوروڪريٽن جو خيال آهي ته سنڌ جي بيورو ڪريسي ۾ اها اهليت ۽ صلاحيت ئي ڪونهي، جو اها ترقياتي رقمون خرچ ڪري سگهي. اها ڳالهه اوڏي مهل سچي لڳي ٿي جڏهن اهل ڪامورن کي سٺي ڪارڪردگي هجڻ جي باوجود رڳو ان ڪري هٽايو وڃي ٿو، جو اهي ونگار وهڻ لاءِ تيار ناهن. مختلف کاتن جا سيڪريٽري توڙي ٻين اهم ادارن جا سربراهه مشڪل سان ٽي کان ڇهه مهينا رهن ٿا. اهڙي ايڊهاڪ ازم خراب حڪمراني کي هيڪر وڌيڪ خراب ڪري ڇڏيو آهي. نتيجي ۾ صحت توڙي تعليم کاتا ايمرجنسي لاڳو ڪرڻ باوجود اوترا ئي خراب آهن، جيترا اڳ هئا. سنڌ جي ماڻهن کي عام ڀلي يعني General Good طور ڪجهه ڏيڻ ۽ حڪمراني کي بهتر ڪرڻ، وڏن توڙن ننڍن شهرن ۾ صحت، صفائي، سيوريج کي سڌارڻ اهم ايجندا آهن. ماڻهو آسرو رکيو ويٺا آهن ته اهو سڀ ڪجهه ڪڏهن ته ٺيڪ ٿيندو. ڇا آصف زرداري کي ”وڏي سياست“ ۽ وڏي راند ڪندي اهي سڀ ننڍا ماڻهو ۽ ننڍڙيون شيون ياد رهنديون؟
آصف علي زرداري جي واپسي تي ٿيندڙ مختلف تبصرا ۽ تجزيا پنهنجي جاءِ تي، پر ڊگهي نظر رکندڙ چون ٿا ته بلاول ڀٽو، خورشيد شاهه، اعتزاز احسن ۽ رضا رباني جون ڪوششون ۽ ڪڏهن ڪڏهن تيز ۽ تکا بيان پنهنجي جاءِ تي، پر عملي طرح سان پارٽي سڄي سياسي منظرنامي ۾ پوئتي ڌڪجي ويئي آهي. ائين ٿو لڳي ته ڄڻ اها ايندڙ منظرنامي ۾ غير ضروري بڻجي رهي آهي. هن 2013ع ۾ جيڪا سنڌ کي ڇڏي باقي صوبن ۾ پنهنجي حيثيت وڃائي هئي، سا سمورين ڪوششن جي باوجود بحال نه ڪري سگهي آهي. پيپلز پارٽي کي نواز ليگ جي متبادل لاءِ ئي نه، بلڪه بطور اپوزيشن پارٽي جي پنهنجو وجود برقرار رکڻ لاءِ وڏيون ڪوششون ڪرڻون پيون هيون. تازو ٿيل قومي اسيمبلي جي اجلاس ۾ پيپلز پارٽي ۽ تحريڪ انصاف هڪ ٻئي کان گوءِ کڻڻ جون ڪوششون ڪري رهيون هيون ته اصل اپوزيشن ڪير آهي؟
بلاول ڀٽو کي ميدان ۾ لاٿو ويو ته هو نئين جنريشن لاءِ دلچسپي ۽ ڪشش جو باعث بڻبو. ان ڏس ۾ نه هو ڪو آزادانه طور فيصلا ڪري سگهيو ۽ نه وري ڪي اهڙيون سرگرميون. بلاول ڀٽو چار نڪاتي پروگرام ڏيئي محترمه جي ورسي کان پوءِ لانگ مارچ جو اعلان ڪري چڪو آهي. سندس لب و لهجو نواز حڪومت بابت به گهڻو تيز ۽ مخالفت وارو آهي. ڇا آصف علي زرداري ان لانگ مارچ ۽ نواز حڪومت خلاف اهڙي جارحانه پاليسي جي حمايت ڪندو؟
اهڙي صورت ۾ بلاول ڀٽو جو ڇا رول هوندو ۽ خود ”وڏي“ جو ڇا رول هوندو؟ مختلف رايا پيش ٿي رهيا آهن. ڪن جو چوڻ آهي ته پارٽي جي ڊرائيونگ سيٽ تي بلاول ئي هوندو ۽ پوئين سيٽ تي زرداري صاحب جن پاڻ هوندو. اهو به امڪان آهي ته بلاول کي جارحانه ۽ نوجوانن واري پچ ڏني وڃي ۽ باقي مفاهمت، ڳالهين، لابنگ، جوڙ توڙ وارو کاتو زرداري صاحب پاڻ هلائي. جيڪڏهن ائين به ڪيو وڃي ٿو ته ڊرائيونگ سيٽ دراصل بلاول نه، پر زرداري وٽ هوندي.
پيپلزپارٽي جو خيال آهي ته نواز ليگ سان ان جا ناتا خراب ڪرڻ ۾ چوڌري نثار علي خان جو وڏو ڪردار آهي. ان حوالي سان چوڌري نثار ۽ پيپلزپارٽي جي وچ ۾ بيانن جي به ”ڏي جواب، وٺ جواب“ جو سلسلو هلندو پيو اچي. ڪوئيٽا سانحي بابت جسٽس عيسيٰ جي رپورٽ چوڌري نثار علي خان جي خلاف چڱو خاصو مواد ۽ جواز ٺاهي ڏنو آهي. ان خلاف پيپلزپارٽي وڏي مهم هلائي سگهي ٿي، لابنگ ڪري سگهي ٿي. جيڪڏهن پرويز رشيد عمران خان جي مهم ۽ نام نهاد ”نيوز گيٽ“ جي نالي تي وڃي سگهي ٿو ته چوڌري نثار عدالتي ڪميشن جي لپيٽ ۾ اچي سگهي ٿو. اها ڪاميابي پيپلزپارٽي پنهنجي ڪاميابي ڳڻائيندي، اهو سڄو سلسلو ان سان به ملي ٿو ته آصف زرداري جي جهاز لهڻ کان ڪجهه دير اڳ سندس بزنس پارٽنر طور سڃاڻپ رکندڙ انور مجيد جي ٻن آفيسن تي رينجرز ڇاپا هڻي سندس آجيان ڪئي آهي. اطلاعن موجب وزيراعظم ان معاملي بابت چوڌري نثار کان پڇيو آهي ته معاملو ڇا آهي؟
پيپلزپارٽي کي وڏي ڏکيائي اها آهي ته اها حڪومت ۾ به آهي ۽ اپوزيشن ۾ به آهي، ان ڪري سندس حڪمت عملي ۾ جامعيت ۽ ڳانڍاپو گهٽ آهي. مٿان وري ڪرپشن جا ڪيس ۽ ٽئين ڌر جو دٻاءُ آهي. اهڙين حالتن ۾ پارٽي طرفان ڪو مضبوط نعرو ۽ حڪمت عملي جوڙڻ ۽ ان تي تسلسل سان ڪم ڪرڻ وڌيڪ تجربي، ڄاڻ ۽ Vision جي گهرج ڪري ٿو. آصف زرداري جنهن هڪ انٽرويو ۾ چيو هو ته ”اسان کان وڌيڪ بهتر طريقي سان وڙهڻ ڪير به نٿو ڄاڻي“ جيڪڏهن زرداري نئين حڪمت عملي ۽Narrative ٺاهي ٿو وڃي ته سندس وطن واپسي پارٽي لاءِ سڀاڳي ٿي سگهي ٿي. هن اچڻ شرط جنهن پاليسي جو اعلان ڪيو آهي، سا نواز شريف سان نه وڙهڻ ۽ سياست ڪري ايندڙ وقت ۾ نتيجا حاصل ڪرڻ جو اشارو آهي. ڏسڻو اهو آهي ته هو ڪهڙا ڪارڊ شو ٿو ڪري ۽ اهي ڪيئن ٿو کيڏي؟
هڪ وڏي گنجائش آهي ته جهڙي طرح سان چارٽر آف ڊيموڪريسي تحت ضياءَ ۽ مشرف سويلين حڪومتن کان جيڪو Space حاصل ڪيو هو، ۽ گذريل ٽن سالن ۾ اهو جهڙي نموني وڃايو آهي، سو ٻيهر وٺڻ Regain ڪرڻ لاءِ نواز ليگ ۽ پيپلزپارٽي گڏجي بيهن, پر اهو ڏکيو ڪم آهي، ڇاڪاڻ جو ٻنهي پارٽين جا سياسي ۽ ذاتي مفاد آڏو اچي ويندا.
sohailsangi@yahoo.com

ڇنڇر 24 ڊسمبر 2016ع

Labels:

سنڌ ۾ ”کاٻي ڌر“ جي تحريڪ ٻيهر اسري سگهندي؟

سهيل سانگي

           جهوني ڪميونسٽ ڪامريڊ ڄام ساقيءَ جي جدوجهد، سياست ۽ قربانين کي مڃتا ڏيڻ لاءِ اربع ڏينهن تي ممتاز مرزا آڊيٽوريم ۾ ٿيل ميڙاڪو کاٻي ڌر جي هڪ گڏجاڻيءَ ۾ تبديل ٿي ويو. بنا ايجنڊا، بنا ڪنهن رٿابنديءَ جي، ڪامريڊ جي دوستن ساڻس رهاڻ رچائي هئي، جنهن جي ڪا به سياسي ايجنڊا نه هئي. هن سڏ کي سنڌ جي ڪنڊڪڙڇ مان گهوٽڪي، سکر، شهدادڪوٽ، خيرپور ۽ نوابشاهه کان وٺي، عمرڪوٽ ۽ ننگرپارڪر تائين جي پراڻن ڪميونسٽن ۽ سياسي ڪارڪنن شرڪت ڪئي. سڄو فوڪس ڄام ساقي، ساڻس گهاريل گهڙيون، جدوجهد ۽ سياست رهي. هر ڪنهن وٽ پنهنجي پنهنجي ڪهاڻي هئي. اها ڪهاڻي جيڪا ملڪ ۾ سماجي، معاشي ۽ سياسي برابريءَ جا خواب سجائي ڪيل جدوجهد جي ڪهاڻي هئي. شرڪت ڪندڙن مان ڪيترائي دوست پنجاهه ۽ سٺ جي ڏهاڪي کان مٿي واري عمر ۾ آهن، پر سندن اکين مان اهي خواب اڃا ختم نه ٿيا آهن. هن ميڙاڪي کي ڏسي اهي خواب هيڪر وڌيڪ جرڪي پيا هئا. ميڙاڪي ۾ نوجوانن جو وڏو انگ هو، جيڪو سنڌ جي نوجوانن ۾ انقلابي لاڙي کي ظاهر ڪري رهيو هو. پراڻي ڪميونسٽ پارٽيءَ جا صرف ڪارڪن ۽ اڳواڻ ئي نه هئا، پر سنڌ جي مختلف مڪتبه فڪر سان تعلق رکندڙ، جدوجهد ڪندڙ ۽ دانشور ليکڪ به موجود هئا. ائين هي گڏجاڻي زندگيءَ جي مختلف شعبن سان تعلق رکندڙن جي گڏجاڻي هئي، جيڪي تنظيمي يا نظرياتي طور تي کڻي ڪامريڊ ڄام جا ساٿاري نه رهيا هئا، پر انهن به پنهنجي پر ۾ هن ڌرتي ۽ ڌرتيءَ جي ماڻهن جي حقن لاءِ پاڻ پتوڙيو هو. ائين سنڌ جي سمورن جاکوڙيندڙ اڳواڻن، ڪارڪنن ۽ دانشورن اها مڃتا ڏني ۽ ٿر جي وارياسي ڀٽن ۾ جنم وٺندڙ بهادر اڳواڻ جي فڪري، سياسي ۽ جدوجهد جي سياسي پورهئي ۽ ڪردار کي ساراهيو. کيس هڪ غير تڪراري کاهوڙي ڪردار قرار ڏنو. ڪيترائي دوست شرڪت نه ڪري سگهيا، جو کين خبر ئي نه هئي ته اهڙو پروگرام ٿيندو.
سنڌ ۾ ڪميونسٽ پارٽي ڄڻ ڄام ساقيءَ جو ئي نالو هئي. ان جو اندازو حڪمرانن کي به ٿي ويو، جن کيس 1978ع ۾ گرفتار ڪري اهڙيون اهڙيون اذيتون ڏنيون، جن جا منفي اثر سندس صحت تي هاڻ چٽي طرح ظاهر ٿي رهيا آهن. 1980ع ۽ 1990ع واري ڏهاڪي ۾ سنڌ ۾ ڪميونسٽ تحريڪ جو عروج هو. اها تحريڪ فڪر ۽ تنظيمي لحاظ کان هڪ مضبوط لاڙي طور موجود هئي. سندس ڪارڪنن جي سچائي، ڪميٽمنٽ، بهادري ۽ جاکوڙ سنڌ ۾ ڪم ڪندڙ مختلف سياسي جماعتن ۽ ڪارڪنن لاءِ اُتساهه جو ڪارڻ بڻيل رهي. هڪ اهڙو مضبوط پليٽ فارم، جنهن کان سواءِ ڪا به سياسي تحريڪ ۽ اتحاد ڄڻ اڌورو اڌورو لڳندو هو، پوءِ اهو اتحاد جمهوريت جي بحالي هجي يا سنڌ جي قومي حقن لاءِ هجي يا ڪنهن ٻئي ٻرندڙ اشو تي هجي.
1980ع واري ڏهاڪي جي پوئين اڌ ۾ ضياءُ الحق جي مرڻ کان پوءِ ملڪ ۾ سول حڪومت قائم ٿيڻ واري دور ۾ سڄي دنيا ۾ وڏيون تبديليون اچي چڪيون هيون. سرد جنگ اُجهامڻ ڏي وڃي رهي هئي ۽ نوان معاشي، سياسي مظهر ۽ سماج ۾ نوان ڪردار ۽ رانديگر اچي رهيا هئا. اوڏي مهل ڪميونسٽ پارٽيءَ اندر جيڪو بحث ڇڙيو، تنهن پارٽيءَ کي به اڌ ڪري وڌو. بنيادي نُقطو اهو هو پارٽيءَ جي ٽرانسفارميشن يعني پارٽي ۽ ان جي ڪم جي طريقيڪار ۽ مقصد کي بدليل حالتن مطابق ٺاهجي. ٻين لفظن ۾ اهو ته پارٽيءَ کي عوامي پارٽي بڻائي مک ڌارا جي پارٽِي ٺاهجي. پارٽيءَ اندر انهن ٻن لاڙن جي اندروني جدوجهد ٻه ٽي سال کن هلندي رهي. ٻيو لاڙو اهو هو ته پارٽي کي انڊر گرائونڊ پارٽي طور تي رکيو وڃي، ڇاڪاڻ جو اڃان تائين آمريڪي سامراج ۽ پاڪستاني اسٽيبلشمينٽ ڪنهن اهڙي ڪميونسٽ پارٽيءَ کي کليل نموني سان ڪم ڪرڻ نه ڏيندا. ان ڀڃ ڊاهه ۾ اڪثريتي ۽ اقليتي گروپ ٺهي ويا. ڪامريڊ ڄام ساقي، ڪامريڊ نازش امروهوي، پروفيسر جمال نقوي سان ڪانگريس جي اڪثريت بيهي رهي. اقليتي گروپ طور سامهون ايندڙن ۾ افراسياب خٽڪ، امداد چانڊيو ۽ غلام رسول سهتو ۽ ٻيا شامل هئا. پارٽي جڏهن ٻه اڌ ٿي ته سڄي ملڪ، خاص طور تي سنڌ جي کاٻي ڌر جي ڪارڪنن ۾ مايوسي، ڏک ۽ ڪاوڙجي لهر ڇائنجي وئي. ائين کڻي چئجي ته پارٽيءَ جي ليڊرشپ صحيح صورتحال جو ادراڪ ڪري نه سگهي ۽ انهن اندروني اختلافن، سياسي توڙي نظرياتي گهوٽالي کي حل نه ڪري سگهي. نتيجو پارٽيءَ جي ٽُٽڻ جي صورت ۾ پڌرو ٿيو. ڪجهه عرصي تائين ٻه ڌار ڌار پارٽيون هلنديون رهيون، پر اهو سلسلو گهڻو وقت هلي نه سگهيو. جڏهن جهاز وچ سير ۾ ڀڄي پوندو آهي ته ان جو هر تختو پنهنجو گس وٺندو آهي، هتي به ائين ٿيو. ڪامريڊ ڄام ساقي دوستن جي وڇوڙي کي ڏسندي پارٽيءَ جي جنرل سيڪريٽريءَ جي عهدي تان استعيفا ڏئي پنهنجي پاڻ کي آزاد ڪيو. اوڏي مهل اقليتي گروپ، جنهن جا ڪيترائي مکيه اڳواڻ ڪامريڊ ڄام سان لڳاءُ رکندا هئا، اهي به کيس پاڻ سان شامل نه ڪري سگهيا. ائين هڪ مضبوط سياسي لاڙو، تنظيم ۽ تحرڪ سنڌ ۾ پنهنجو اثر بطور لاڙي ۽ تحريڪ جي وڃائي ويٺو. ها اهو ضرور ٿيو جو انفرادي طور ڪيترائي ڪامريڊ انسان دوست، پورهيت عوام ۽ ڌرتيءَ جي حقن، جمهوريت ۽ ترقي پسنديءَ سان واڳيل رهيا، پر سندن اهي انفرادي سوچون ۽ ڪوششون اثرائتو ڪردار ادا نه ڪري سگهيون، ڇاڪاڻ جو ڪا به تنظيم يا نيٽ ورڪ موجود نه هو. اڪثريتي گروپ جو ساٿ ڏيڻ ۽ ان بعد اتان استعيفا ڏيڻ بعد ڪامريڊ ڄام اڪيلو ٿي ويو. خود انهيءَ اڪيلائپ ۽ ڪامريڊن جي وڇوڙي بابت هن ڪيترائي ڀيرا مون سان حال پڻ اوريو.
وقت گذرندو ويو، حالتون تبديل ٿينديون رهيون. پُلين جي هيٺان الائجي ڪيترو پاڻي وهي ويو. ان وچ ۾ ٽي چار ڀيرا ڪامريڊ جي سالگرهه جون تقريبون پڻ ٿيون، پر اهڙي وڏي ۽ اثرائتي موٽ نه ملي. هن ڀيري جي ڪوشش هڪ وڏو ڇال هئي، جنهن سمورن محبتن کي ميڙي وڌو. کيس پراڻن ڪامريڊن سڄي سنڌ مان اچي، سرعام ۽ باضابطا مڃتا ڏني، ائين ڄام کي Own ڪرڻ جو سرعام اعلان ڪيو ويو، انهن ۾ اهي دوست به شامل هئا، جيڪي پارٽيءَ جي ٽُٽڻ مهل سندس مخالف ڪئمپ ۾ بيٺا هئا. ڪامريڊ غلام رسول سهتو ۽ امداد چانڊيو جا خاص طور تي اهي جملا ته ”اسين ڄام ساقي جي پيداوار آهيون، هن اسان کي حق تي بيهڻ، انسان دوستي ۽ جدوجهد ڪرڻ سيکاريو.“ ڪامريڊ ڄام سان سڄي سنگت گڏ ٿي اچي محبت جو اظهار ڪيو ۽ ان ڳالهه کي ورجايو ته توهان جدوجهد ڪئي، جيڪا قرباني ڏني سا رائيگان نه وئي آهي. توهان جا اڄ به پرستار موجود آهن، جيڪي بنا ڪنهن لوڀ لالچ جي کيس سُرخ سلام پيش ڪرڻ آيا آهن، ان ساڳي پنهنجائپ جو اظهار ڪري رهيا آهن. غير رسمي گڏجاڻي ڪجهه رسمي ۽ سياسي به بڻجي وئي، ان ۾ اها خوشبو موجود هئي ته ڪم کي ٻيهر شروع ڪجي شديد خواهش ۽ هر کر هئي. سخت ۽ ڊگهي جدوجهد ڪندڙ سياست جو وڏو جذبو رکندڙ دوستن جون تقريرون ۽ ساڻن ٿيل ڳالهه ٻولهه اهو ٻُڌائي رهي هئي ته اهي موجوده منظر مان بنهه غير مطمئن آهن، ان جو اظهار به ڪري رهيا هئا. جيتوڻيڪ ڪا باقاعده سياسي حڪمت عملي نه هئي، پر انقلابي سياست سان لڳاءُ هو، اهو لڳاءُ ڪنهن کاٻي ڌر جي ڪامريڊن جي ٻيهر اوسر جي به شڪل اختيار ڪري سگهي ٿو. بهرحال هن ميڙاڪي اهو ثابت ڪيو ته ڪنهن مربوط ۽ تنظيمي شڪل ۾ نه سهي، پر فڪري ۽ سياسي طور تي اهو لاڙو ۽ گروپ موجود آهي، جيڪو ڪالهه تائين ڪميونسٽ يا ڄام ساقي گروپ سڏبو هو. سنڌ ۾ ليفٽ جي تحريڪ اُڀري سگهي، ان لاءِ ڪنهن اهڙي ارڏي ۽ جاکوڙي ڪردار جي ضرورت آهي. اهو صحيح آهي ته ڪامريڊ ڄام پنهنجي صحت ۽ عمر جي ڪري پاڻ ذاتي طور ڪو فعال سياسي ڪردار ادا نه ٿو ڪري سگهي، پر سندس رُٺل ساٿي به کيس پنهنجو سڏي رهيا آهن.
sohailsangi@yahoo.com


جمع  16 ڊسمبر  2016ع

Labels:

آرمي چيف جي تبديلي ۽ ملڪي سياست جا بدلجندڙ رنگ!

اسلام آباد تي ڇانيل ڪوهيڙو ڇٽجي چڪو آهي، لڳي ٿو ته في الحال ”سڀ خير آهي“ جا احوال اچي رهيا آهن. گذريل ڇهن اٺن مهينن کان ملڪ اندر پيدا ٿيل غير يقيني صورتحال جو هڪڙو مرحلو پورو ٿي ويو. ايندڙ پنج مهينا گهٽ غير يقيني صورتحال وارا گذرندا. پاناما ڪيس جي شنوائي 30 نومبر تائين ملتوي ٿيل آهي، تيستائين فوج جو نئون سربراهه ڪمانڊ سنڀالي وٺندو. ان کان اڳ صورتحال ڪجهه اهڙي بيٺل هئي، جو تحريڪِ انصاف وفاقي گاديءَ واري شهر کي بند ڪرائي رهي هئي، تڏهن هر قسم جا افواهه، امڪان ۽ انديشا سياسي بازار ۾ گرم هئا.
پاڪستان عجيب ملڪ آهي، جتي سڄي سياست کي عسڪري ادارن جي محور تي بيهاريو ويو آهي، سياستدانن جو رول ڄڻ رهيو ئي ناهي. عام خيال اهو هو ته سمورين ناخوشگوارين جي باوجود وزيراعظم نواز شريف، جنرل راحيل کي عهدي ۾ واڌ ڏئي ڇڏيندو. ائين ڪرڻ سان کيس اها پڪ ٿي وڃي ها ته نواز ليگ پنهنجي حڪومت جي باقي رهيل آئيني مدت پوري ڪري وٺندي. پر جنرل راحيل هن معاملي ۾ پيشورانه رويو اختيار ڪيو، پنهنجي ملازمت جي مدت پوري ٿيڻ تي عهدو ڇڏڻ جو فيصلو ڪيو. چوندا آهن ته ”ميڙو متل ڇڏجي“ جنرل راحيل به ائين ئي ڪيو. نئين آرمي چيف جي مقرريءَ ۾ دير وارو معاملو ڳجهارت بڻيل رهندو. خير جيڪو به ٿيو، سو خوب ٿيو. هاڻي ڏسڻو اهو آهي ته ايندڙ وقت ۾ پاليسيون ڇا ٿيون ٺهن؟ ۽ سياست ڪهڙي رخ ۾ ٿي وڃي؟ اهو صحيح آهي ته تاريخ ۾ فرد جو رول هوندو آهي پر اهو رول ڪنهن خاص صورتحال جي نتيجي ۾ اهم بڻجي ويندو آهي. چرچل شايد ايڏو وڏو ليڊر نه بڻجي سگهي ها، جيڪڏهن ٻي مهاڀاري جنگ نه لڳي ها. هن جيڪي به پاليسيون جوڙيون، فيصلا ڪيا، سي برطانيه جي مفاد کي سامهون رکندي ڪيا ۽ ان سڄي قصي ۾ برطانيه جي حڪمران طبقن ۽ ٻين سگهارين ڌرين کي پاڻ سان گڏ کڻي هليو. پاڪستان ۾ موجود ادارا، پوءِ اهي سياسي ادارا جهڙوڪ پارليامينٽ هجي، سياسي جماعتون هجن يا وري عدليه ۽ عسڪري ادارا، اهي سڀ سڌي يا اڻ سڌي طرح فيصلا اهڙي نموني ڪندا آهن، جيڪي انهن ادارن جي حق ۾ هجن ۽ کين پنهنجن پنهنجن ادارن وٽان کين حمايت حاصل هجي. سياسي پارٽيون ملڪ ۾ بطور مضبوط ادارن جي اها شڪل نه وٺي سگهيون آهن. انهن جي تنظيمي، سياسي دورانديشي، ماڻهن ۾ مقبوليت، حڪمت عملي وغيره جي صلاحيت گهٽ رهي آهي. نتيجي ۾ سندن پاسو هميشه ڪمزور رهيو آهي. سون تي سهاڳو اهو، جو مٿان وري خراب حڪمراني ۽ مالي ڪرپشن واريون ڳالهيون شامل ٿي وڃن ٿيون ته رهيل ڪسر به پوري ٿيو وڃي. پارليامينٽ اداري جي طور تي آهي، جيڪا مقرر قاعدن قانونن تحت هوندي آهي. پر اتي اهڙي قسم جي غير منظم ۽ ذاتي مفاد رکندڙ ماڻهن جي موجودگي ان جي رول کي هاڃو رسائي وجهي ٿي. عمران خان جڏهن چونڊن ۾ ڌانڌلين جي الزامن هيٺ ڌرڻو هنيو هو، تڏهن سياسي پارٽين ۽ پارليامينٽ جيئن ئي پنهنجو وزن ڏيکاريو ته ان کي پوئتي هٽڻو پيو. ساڳي صورتحال جسٽس افتخار محمد چوڌري جي زماني ۾ عدليه بابت چئي سگهجي ٿي ته ان بطور اداري جي عمل ڪيو. ظاهر آهي ته فوج ملڪ جي ٻين ادارن کان وڌيڪ مضبوط، سگهارو ۽ ڊسيپلين وارو ادارو آهي. اهو به بطور اداري جي عمل ڪندو آهي. ان جو چٽو اظهار نواز شريف طرفان جنرل مشرف کي هٽائڻ مهل اسان ڏٺو. اسين هتي ان بحث ۾ في الحال ڪونه ٿا وڃون ته ان عمل کي ڪيتري آئيني يا قانوني حيثيت آهي. ايندڙ وقت ۾ ڪهڙيون پاليسيون ٺهنديون؟ اهو هڪ سوال ضرور آهي.
ڪجهه عرصو نئين چيف کي پنهنجي اداري جا انتظامي معاملا ڏسڻ ۾ لڳندو. ان کان پوءِ ئي مختلف معاملن تي پاليسي ۽ فيصلي سازي ڪندو. پر ڪيترن معاملن ۾ پاليسين جو تسلسل برقرار رهندو، ڇاڪاڻ جو آپريشن ضربِ عضب هجي يا ڪراچي وارو آپريشن هجي، انهن کي پنهنجي منطقي ماڳ تي پهچائڻو آهي. اهڙو حوالو جنرل راحيل شريف پنهنجي الوداعي تقريرن ۾ ڏئي چڪو آهي. جيستائين ملڪ جي پرڏيهي پاليسي، انڊيا، افغانستان، آمريڪا يا چين وغيره سان ناتن يا هن خطي ۾ پاڪستان جي رول يا امن جو تعلق آهي، ان بابت ڪافي ڳالهيون طئي ٿيل آهن. اهي ڳالهيون چونڊيل حڪومت جي اختيارن کان مٿڀريون ٿيل آهن. اهي جيئن جو تيئن رهنديون، جڏهن ته هن خطي جي صورتحال ۾ ترڪي جو اچڻ نئون سياسي مظهر لڳي ٿو، جيڪو اڳتي هلي اڃا وڌندو. هونئن به نواز شريف کي ان معاملي ۾ ڪو فڪر ناهي. ان ڪري في الحال معاملو ائين ئي هلندو. اهو چئي سگهجي ٿو ته بظاهر سندس حڪومت کي ڪو خطرو ڪونهي، پر پاناما ليڪس وارو معاملو سندس ڳچي ۾ پيل آهي، جيڪو سياسي وڌيڪ بڻجي ويو آهي. ان مان وقت بوقت مختلف ڌريون پنهنجي ضرورت ۽ سگهه موجب فائدو وٺنديون رهيون آهن. لڳي ٿو ته ايندڙ وقت ۾ به اهو سلسلو جاري رهندو. قانوني ماهرن جو خيال آهي ته هن وقت تائين آيل ثبوتن ۽ دليلن کي ڏسندي سڌي طرح ڪنهن فيصلي ڏيڻ بدران جڊيشل ڪميشن کي موڪلڻ کي ترجيح ڏني ويندي.
انهيءَ جو قطعي طور اهو مطلب ناهي ته ايندڙ وقت ۾ ملڪ اندر ڪا هلچل يا تبديلي نه ايندي. لڳي ٿو ته نواز شريف کي جيترو ڪمزور ڪرڻو هو، سو ٿي چڪو. ان جي نتيجي ۾ پنجاب ۾ ڪيتري جاءِ خالي ٿي آهي، ان جو اڃان تائين ڪو اندازو نه ٿي رهيو آهي. اها جاءِ جيڪڏهن عمران خان ڀري ٿو ته 2018ع جي چونڊن ۾ سندس پارٽي وفاقي حڪومت ٺاهي وٺندي، پر جيڪڏهن اها جاءِ پيپلز پارٽيءَڀري ٿي ته اها وفاق ۾ حڪومت ٺاهيندي. جيڪڏهن ايئن ٿئي ٿو ته اها وڏي ڳالهه ٿي ويندي، جيڪا گهڻين ڌرين کي ڪونه وڻندي. خود نواز ليگ به ان جي حق ۾ نه ويندي ته ڪو پيپلز پارٽي کي ايتري جڳهه ڏني وڃي. اهڙي حالت ۾ هنگ پارليامينٽ بيهندي. مطلب ڪا ٻي ڌر وچ ۾ اچي گڏيل حڪومت ٺهرائي. اها گذريل حڪومت نواز ليگ ۽ پيپلز پارٽي جي ٿي سگهي ٿي يا وري تحريڪ انصاف سان ڪجهه ڌرين کي گڏائي جڙي سگهي ٿي. بلاول ڀٽو جي لڳاتار لاهور ۾ موجودگي ۽ آصف زرداري طرفان ملڪ اچڻ جو اعلان ان ڳالهه کي ظاهر ڪن ٿيون ته پيپلز پارٽي پنهنجو ڪردار ادا ڪرڻ چاهي ٿي. مطلب ته هاڻي اهو وقت شروع ٿي رهيو آهي، جڏهن اختيار ۽ اقتدار ۾ حصو پتي ورهائڻ جو فيصلو ٿيڻو آهي، پر پيپلز پارٽي جي لاءِ اهو ڪم ايڏو سولو ڪونهي. سنڌ ۾ سندس حڪومت جي ڪارڪردگي ۽ هڪ دفعو وري ان خلاف عدليه ۾ ايندڙ مختلف ڪيس ٻڌائين ٿا ته ان کي ايترو ”واندو“ ۽ آزاد نه ڇڏيو ويندو، جو اها پنجاب اچي وڌيڪ حصو ڪليم ڪري. اوڏي مهل سنڌ حڪومت جي ڪارڪردگي ۽ بي ضابطگين وارا قصا نئين سر سامهون اچي ويندا. بهرحال معاملو هاڻي نئين ورڇ ٿيڻ واري نقطي تي اچي بيٺو آهي.
sohailsangi@yahoo.com

سهيل سانگي 
جمع 25 نومبر 2016ع 
آرمي چيف جي تبديلي ۽ ملڪي سياست جا بدلجندڙ رنگ!

Labels:

احتساب سرشتي جي جوڙجڪ لاءِ سياسي ڌريون سنجيدهه آهن؟

احتساب سرشتي جي جوڙجڪ لاءِ سياسي ڌريون سنجيدهه آهن؟

سهيل سانگي

پاناما ليڪس وارو معاملو سپريم ڪورٽ تائين پهچڻ جي باوجود اڃان تائين سياسي ميدان ۾ نه رڳو موجود آهي، بلڪه سياسي فضا تي حاوي پڻ آهي. ان بابت سياسي ڌريون ڪورٽ اندر توڙي ٻاهر به ڳالهائي رهيون آهن. تحريڪ انصاف، جماعت اسلامي، نواز ليگ هن ڪيس ۾ ڌُر بڻيل آهن، جڏهن ته پيپلز پارٽي اڃان تائين عدالت ۾ ڌُر نه بڻي آهي، پر سياسي ميدان ۾ ڌُر هجڻ بابت پنهنجو وجود روز يا ٻئي ڏينهن تي ياد ڏياري رهي آهي. تازو پيپلز پارٽيءَ جي اپوزيشن ليڊر خورشيد احمد شاهه چيو آهي ته، قطر جي شهزادي جو خط عدالت ۾ پيش ڪري وزير اعظم ماڳهين ٻه ٽنگو ڦاسي رهيو آهي. عدالت چوي ٿي ته اخباري تراشا ثبوت نٿا ٿي سگهن. عدالت پنهنجي طور تي هن گهڻ رُخي ۽ مُنجهيل سُٽ کي سُلجهائڻ جي ڪوشش ڪري رهي آهي، جنهن ۾ الزام وڌيڪ ۽ ثبوت گهٽ نظر اچي رهيا آهن. ثبوت هميشه جاچ ڪندڙ ادارو حاصل ڪري سگهندو آهي ۽ انهن ثبوتن کي قانون مطابق جوڙي سموريون ڪڙيون ملائي ڪيس ٺاهيندو آهي. اهو ڪم پراسيڪيوشن جو هوندو آهي، پر هن معاملي ۾ پراسيڪيوشن ته آهي ئي ڪو نه. تحريڪ انصاف پٽيشنر آهي، يعني پٽيشنر ڄڻ ثبوت پيش ڪرڻ جو ذمو پاڻ تي کنيو آهي.
سمورن سياسي نظامن ۾ سياسي جماعتن جو ڪم سياسي هوندو آهي. ثبوت جاچ کان سواءِ ملڻ مشڪل هوندا آهن، اهو ڪم سياسي جماعتون ڪري نه سگهنديون آهن. جيڪڏهن هي ڪم سياسي جماعتون ڪرڻ لڳنديون ته ڪيس قانون جي دائري ۾ ڪيترو مضبوط هوندو؟ ان بابت قانوني ماهرن کي شڪ آهي. اهو ڪم احتساب لاءِ جوڙيل ادارن جو هوندو آهي، اهي ادارا پاڪستان ۾ نيب ۽ ايف آءِ اي طور سُڃاتا وڃن ٿا يا وري وفاقي روينيو اٿارٽي اهو ڪم ڪري سگهي ٿي. انهن ادارن جو حال ڪو چڱو ناهي، اهي خودمختيار ناهن. هر دور جيان هن وقت به حڪومت جي اثر هيٺ آهن. انهن ادارن وٽان هن وقت تائين ڪا به پيش رفت سامهون نه آئي آهي، ڇاڪاڻ جو سرڪاري طرح نه انهن کي ڪو ريفرنس موڪليو ويو آهي ۽ نه ئي وري عدالت يا ٻي ڪنهن اهڙي اختياريءَ طرفان کين اها جاچ ڪرڻ لاءِ چيو ويو آهي. ان صورت ۾ انهن ادارن وٽان اهو ئي جواب ايندو ته اها سندن دائري اختيار ۾ ناهي.
پاڪستان جي سياست ۾ 90ع واري ڏهاڪي کان احتساب جو دُهل وڄي پيو ۽ ان نالي تي رڳو سياست ٿي رهي آهي، پر ڪنهن جو به ڪو احتساب نه ٿي رهيو آهي. وزير اعظم نواز شريف به پاڻ کي احتساب لاءِ پيش ڪيو، پر سندس آڇ تي ڪير عمل ڪري ۽ ڪيئن ڪري؟ آصف علي زرداريءَ جو اهو موقف آهي ته سندس احتساب ٿي چڪو. هو 11 سال انهن الزامن هيٺ قيد ڪاٽي چڪو آهي، پر نڪتو ڪجهه به ڪو نه. عمران خان جو چوڻ آهي ته وٽس لڪائڻ لاءِ ڪجهه به ناهي، هن سڀ ڪجهه پڌرو ڪري ڇڏيو آهي. اها سڄي سياست آهي، اصل ۾ احتساب جو نظام ئي موجود ناهي، جنهن جو فائدو سموريون ڌريون وٺي رهيون آهن.
90ع واري ڏهاڪي ۾ ميان نواز شريف، محترمه بينظير ڀٽو ۽ آصف علي زرداريءَ تي ڪرپشن جا الزام هنيا. جنهن کانپوءِ احتساب بيورو حرڪت ۾ آيو، پر ڳالهه وري وڃي سياست تي بيٺي. حقيقت اها آهي ته هن وقت به جيڪو ”احتساب احتساب“ جو هل هنگامو آهي، دراصل اهي سمورا داءُ پيچ وزارت عظميٰ جي ڪرسيءَ تائين پهچڻ لاءِ لڳايا پيا وڃن. ساڳي صورتحال عمران خان جي به آهي. عمران خان، نواز دور ۾ پنهنجي سياسي جدوجهد ان نُقطي کان شروع ڪئي ته چونڊن ۾ ڌانڌليون ٿيون آهن. هل هلان، وٺ وٺان، وڏي تحريڪ هلي، ڳالهه ڇڪي تاڻي جڊيشل ڪميشن تائين وڃي پهتي. جڊيشل ڪميشن جو فيصلو آيو، جنهن کان پوءِ ڳالهه آئي ويئي ٿي ويئي. عمران خان جو خيال هو ته هو ڌانڌلين جي الزامن هيٺ نه رڳو وزير اعظم نواز شريف جي ساک خراب ڪندو، بلڪه هو ان جي نتيجي ۾ ان کي عهدي کان به هٽائي سگهندو، پر اهو سڀ ڪجهه ڪنهن ٽئين ڌر جي وچ ۾ اچڻ کان سواءِ ممڪن نه هو. جيڪڏهن واقعي به عمران خان سمجهي ٿو ته چونڊن ۾ ڌانڌليون ٿيون ۽ جڊيشل ڪميشن جي فيصلي کي قبول ڪرڻ جي باوجود به هو مطمئن نه هو، ته اهڙي صورت ۾ ضرورت ان ڳالهه جي هئي ته چونڊن ۾ سُڌارا آڻڻ جي تحريڪ هلائي وڃي ها ته جيئن ايندڙ چونڊن ۾ ڪو اهڙو ”ڊرامو“ نه ٿي سگهي ها.
پڙهندڙن کي ياد هوندو ته چونڊن ۾ ڌانڌلين خلاف تحريڪ ۽ ان بابت جوڙيل جڊيشل ڪميشن جي زماني ۾ اهي ڳالهيون گهڻيون گرم هيون ته چونڊن جي سرشتي ۾ سڌارا آندا پيا وڃن. ان مقصد لاءِ هڪ عدد پارلياماني ڪميٽي به ٺهي هئي، پر ان ڪميٽي ٺهڻ کي به هاڻي ٻه سال ٿي ويا آهن. نه عمران خان ان جي ڪا سار لڌي ۽ پوئواري ڪئي ۽ نه ئي وري پيپلز پارٽيءَ يا حڪمران جماعت نواز ليگ ڪا ان ڏس ۾ چُرپر ڪئي ۽ سرگرمي ڏيکاري آهي. ڇا انهيءَ جو مطلب اهو سمجهيو وڃي ته ملڪ جون اهي ٽئي جماعتون چونڊن واري سرشتي کان مطمئن آهن يا وري ان کي تبديل نه ٿيون ڪرڻ چاهين؟ دراصل اهي جماعتون انهيءَ چونڊ- سرشتي مان فائدو وٺڻ گهرن ٿيون. جيڪڏهن ڪنهن سبب جي ڪري کين اهو فائدو نه ٿو ملي ته ڌانڌليءَ جي الزام جو دُهل وري ڳچيءَ ۾ وجهي وڄائين ٿيون. مطلب ته ڪا به سياسي ڌر سنجيدگيءَ سان ڪو نظام ٺاهڻ يا ادارو ٺاهڻ جي موڊ ۾ ناهي. شايد ان ڪري اهي سنجيده نه آهن، جو اهي سمجهن ٿيون ته، جيڪو نظام ٺهندو، ان صورت ۾ ڪٿي ائين نه ٿئي، جو هو پاڻ ئي ان جو شڪار ٿين يا ان ۾ ڦاسي پون. تحريڪ انصاف ۽ نواز ليگ جي عجيب منطق آهي. تحريڪ انصاف پاران وزير اعظم نواز شريف کي نا اهل قرار ڏيارڻ لاءِ، جڏهن ته نواز ليگ طرفان تحريڪ انصاف جي سربراهه عمران خان کي نا اهل ڪرڻ لاءِ اليڪشن ڪميشن کي درخواستون ڏنيون ويون آهن، جن ۾ انهن هڪ ٻئي تي ڪرپشن وغيره جا الزام هنيا آهن. دلچسپ ڳالهه اها آهي ته ٻنهي ڌرين جي وڪيلن هڪ ٻئي خلاف ڏنل درخواستن ۾ ساڳيو موقف اختيار ڪيو آهي ته اليڪشن ڪميشن کي اهي درخواستون ٻُڌڻ جو اختيار ئي ڪونهي. سوال اهو آهي ته واقعي به جي اليڪشن ڪميشن کي اهڙو اختيار ناهي، جنهن جو هاڻي ٻئي ڌريون اظهار ڪري رهيون آهن ته پوءِ انهن هڪ ٻئي خلاف اهي درخواستون ڇو ڏنيون؟ اصل ۾ ڌانڌلين خلاف تحريڪ کي عمران خان چونڊ سڌارن طرف وٺي وڃي ها ۽ سمورو دٻاءُ ان لاءِ ئي وجهي ها ته گهڻيون شيون ٺيڪ ٿي وڃن ها. جيڪڏهن چونڊن وارو سرشتو صحيح ٿي وڃي ها ته موجوده حڪمرانن کي به پاڻ سُڌارڻو پوي ها ته ايندڙ چونڊن ۾ ائين ڪم نه هلندو. اهڙي صورت ۾ عمران خان جي کاتي ۾ هڪ وڏي چڱائي لکجي وڃي ها. شايد ان چڱائي لکجڻ ۽ ڪاميابيءَ کان پوءِ اڄ هو بهتر پوزيشن ۾ هجي ها ۽ پاناما ليڪس بابت ڀرپور تحريڪ هلائي سگهي ها.
هن وقت پاناما ليڪس واري معاملي ۾ به عمران خان ساڳي غلطي ڪري رهيو آهي. هو سڄو بار پاڻ تي يا وري عدالت تي وجهي رهيو آهي. ڪيس جون ثابتيون هٿ ڪرڻ لاءِ، جيئن مٿي بيان ڪري آيا آهيون، هڪ سياسي جماعت ۾ نه صلاحيت ۽ سگهه هوندي آهي ۽ نه ئي وري ان جو ڪو ڪردار ان حوالي سان جڙي ٿو. هونئن به اسان جي ملڪ ۾ اهو رواج آهي ته جنهن اداري يا شخص جو جيڪو ڪم نه هوندو آهي، هو اهو ئي ڪم ڪندو آهي ۽ جيڪو ڪم سندس حوالي هوندو آهي، سو نه ڪندو آهي. پاناما ليڪس جي حوالي سان سپريم ڪورٽ الائجي ڪهڙو فيصلو ٿي ڏي؟ اهو سوال پنهنجي جاءِ تي آهي. اهڙن پيش ڪيل ”ثبوتن“ سان ممڪن آهي ته وزير اعظم ۽ سندس ڪٽنب بري ٿي وڃي يا عدالت پاڻ انڪوائري ڪري. پر قانوندانن جو خيال آهي ته، اهو ڪم سڌي طرح عدالت جي دائري اختيار ۾ نه ٿو اچي. اها ان حوالي سان جڊيشل ڪميشن جوڙي سگهي ٿي، جيڪا جاچ ڪري. جڊيشل ڪميشن جي لاءِ به پرڏيهه مان ثبوت هٿ ڪرڻ ايڏو سولو ڪم ناهي. اتي وري به جاچ ڪندڙ ادارن جي ضرورت پوندي. يعني نيب، ايف آءِ اي يا روينيو اٿارٽي جي. اهي ادارا جيئن ته، حڪومت جي اثر رسوخ ۾ آهن، ان ڪري انهن ادارن جي غير جانبداري مشڪوڪ سمجهي وڃي ٿي. اهڙي موقعي تي ضرورت ان ڳالهه جي آهي ته احتساب ڪندڙ ادارن کي مضبوط ڪيو وڃي. اصل تحريڪ به ان لاءِ ئي هلائڻ گهرجي، دٻاءُ به ان لاءِ ئي وجهڻ گهرجي. انهن ادارن کي با اختيار، طاقتور ۽ مضبوط ڪرڻ لاءِ پاڪستان جي ڪا به ڌر تيار ناهي، ڇاڪاڻ جو انهن سمورين ڌرين جو مفاد ان ۾ آهي ته ڪنهن نه ڪنهن طرح سان اهي پاڻ ان کان بچيل رهن. ان ڪري اهو مطالبو ضرور ٿيندو رهندو ته احتساب ڪنهن ٻئي جو ٿيڻ گھرجي ۽ ان احتساب لاءِ ڪو مضبوط ادارو ۽ نظام ضروري هوندو آهي، سو نه هجي. اردوءَ ۾ ڪنهن شاعر ان صورتحال بابت واهه جو شعر چيو آهي:
سچ اڇا هي، ڪوئي اور بولي تو اور اڇا،
سچ ڪي خاطر مرنا اڇا، ڪوئي او مري تو اور اڇا.
sohailsangi@yahoo.com

سهيل سانگي

جمع 18 نومبر 2016ع

ٽرمپ لاءِ اليڪشني وعدن تي عمل ڪرڻ سولو هوندو؟


ٽرمپ لاءِ اليڪشني وعدن تي عمل ڪرڻ سولو هوندو؟
           آمريڪي سپر پاور دنيا ۾ سرمائيداري نظام جو لٺ سردار آهي ۽ اهو سرمائيداري نظام ۽ ملڪن کي بچائڻ لاءِ ڪيترن ملڪن تي رڳو لٺيون ئي نه، پر جديد هٿيار به استعمال ڪندو آهي، معاشي ناڪابنديون به ڪندو آهي. ان جو ٻيو پاسو اهو به آهي ته دنيا جا مقبول گانا، فلمون ۽ ٽيڪنالاجي به جوڙيندو آهي. اتان جي عوام هڪ اهڙي ماڻهو کي صدر چونڊيو آهي، جيڪو خود آمريڪا جي ويجهن اتحادين ۾ به مقبول ناهي. آمريڪا جي هن صدارتي اليڪشن سمورن انومانن، سرويز ۽ تجزين کي ابتو ڪري ڏيکاريو. جيڪي تجزيا ۽ سروي ٿي رهيا هئا، ميڊيا جيڪو ڏيکاري ۽ چئي رهي هئي، سو مختلف هو، جڏهن ته عوام جي راءِ ان کان بنهه مختلف هئي. ٻين لفظن ۾ اهو ته، آمريڪين جي راءِ جوڙيندڙ ادارا يا ان جو اظهار ڪندڙن ۽ عوام جي اصل راءِ جي وچ ۾ وڏي وڇوٽي هئي، جيڪا هيلري ڪلنٽن جي بدران ڊونلڊ ٽرمپ کي صدر چونڊڻ جي روپ ۾ ظاهر ٿي.
آمريڪين هڪ اهڙي ماڻهو کي صدر چونڊيو آهي، جنهن جو سياسي ڪيريئر مشڪل سان ٻه سال آهي ۽ هڪ اهڙي اميدوار کي هارايو آهي، جيڪا عورت هئي، جنهن جو چاليهه سالن جو سياسي ڪيريئر آهي. ٽرمپ جون سماج، سياست ۽ ٻين روز مره جي معاملن بابت سوچون ۽ فڪر اهو ناهي، جنهن جي آمريڪا بظاهر دعويٰ ۽ وڪالت ڪري ٿو. بلڪه هو هڪ اهڙو Typical  پراڻي قسم جو آمريڪي لڳي ٿو، جنهن وٽ ٻين مذهبن، نظرين ۽ سوچ وغيره بابت گهٽ جڳهه آهي، جنهن وٽ جيڪي ڪجهه آهيان، آئون ئي آهيان وارو تصور آهي. سوال اهو آهي ته ڇا آمريڪي عوام ائين سوچي ٿو؟ ان جو جواب بظاهر اهو آهي ته دراصل آمريڪين پنهنجي حڪومت/ حڪمران جماعت لاءِ ڪاوڙ جو اظهار ڪيو آهي. مثال طور ايسوسيئٽيڊ پريس جي سروي موجب جيئن حڪومت هلائي پئي وئي، ان تحت 10 مان 7 ووٽر ناخوش هئا. کيس مليل ووٽرن جو ڇيد ڪجي ته اڃا به ڪجهه وڌيڪ دلچسپ ڳالهون سامهون اچن ٿيون. کيس مليل 10 مان 7 ووٽ اهڙا هئا، جن کي ڪاليج تائين جي تعليم نه هئي ۽ اهي گورا هئا. انهن مان اڪثريت وڏي عمر وارن جي آهن. ان جي ڀيٽ ۾ هيلري ڪلنٽن کي عورتن، اقليتين، نوجوانن جا ووٽ مليا.
ٽرمپ اليڪشن ته کٽي ويو، پر ان جي هن جيت خلاف ٻئي ڏينهن تي آمريڪا جي ڏهن کان وڌيڪ وڏن شهرن ۾ مظاهرا ٿيا آهن. هزارن جي تعداد ۾ ماڻهو گڏ ٿيا. ڪجهه شهرن ۾ ٽرمپ جا پتلا ساڙيا ويا. احتجاج ڪندڙن وائيٽ هائوس ۽ چونڊيل صدر جنهن عمارت ۾ رهي ٿو، ان جي ٻاهران به مظاهرو ڪيو ۽ نعرا هنيا. آمريڪي چونڊن ۽ احتجاجن جي ويجهي ماضي ۾ ڪو اهڙو مثال نٿو ملي. اهي ماڻهو ڌانڌلي وغيره جو الزام نه هڻي رهيا هئا، پر ٽرمپ جي پاليسين بابت پنهنجي ڪاوڙ جو اظهار ڪري رهيا هئا. انهن مظاهرن لاءِ هڪ راءِ اها به آهي ته دنيا کي آمريڪا اهو ڏيکارڻ گهري ٿو ته آمريڪي عوام ٽرمپ کي ائين ڪرڻ نه ڏيندو، جيئن هو سوچي ٿو، جيئن هو چاهي ٿو. ساڳي ريت اهو تاثر ڏيڻ به آهي ته آمريڪا اهڙو ناهي، جهڙو ٽرمپ آهي. ٽرمپ جي جيت ۽ برطانيه جي ريفرنڊم مان هڪ نتيجو اهو به نڪري ٿو ته اولهه وڌيڪ ساڄي ڌر واري سوچ ڏي وڃي رهيو آهي. بهرحال ماڻهن ۾ ڊپ ۽ ڪاوڙ آهي ته چونڊن بعد هي ڪهڙو نتيجو اچي ويو. ورنه دنيا ته هالي ووڊ جي فلم ”ايئرفورس“ يا ”ويسٽ ونگ“ وارو صدر ڏنو هو، جيڪو ڏاڍو ڏاهو ۽ اصول پسند آهي.
اهو صحيح آهي ته آمريڪي حڪومت کان اتي جي اسٽيبلشمينٽ وڌيڪ مضبوط آهي. آمريڪي صدر دنيا جو طاقتور ترين صدر هجڻ جي باوجود سمورن وڏن معاملن ۾ هيٺين ادارن جي هوم ورڪ، صلاح ۽ فيصلي سان سلهاڙيل هوندو آهي. پر ان جي باوجود هر فرد جي طريقيڪار ۽ فيصلي سازي ۾ فرق هوندو آهي ۽ ڪڏهن ڪڏهن سندس ذاتي راءِ ۽ فيصلو اهم ثابت ٿيندو آهي. جيڪڏهن ريپبلڪن پارٽي جي ٻن صدرن جارج بش ۽ ڊونلڊ ٽرمپ جي ڀيٽ ڪجي ته ٻنهي ۾ فرق آهي. اهو فرق ايندڙ وقت ۾ وڌيڪ چٽو ٿيندو. جارج بش چون ٿا ته اخبار به ڪونه پڙهندو هو ۽ مٿس ٿيندڙ تنقيد کي کنگهندو به ڪونه هو. ان جي ابتڙ ٽرمپ ماڻهن وٽان ايندڙ اهڙي مخالفت واري راءِ جو جواب ڏيڻ يا تنقيد جو جواب ڏيڻ ضروري سمجهي ٿو. بش پنهنجي مشيرن ۽ صلاحڪارن تي ڀاڙيندو هو. ٽرمپ صلاحڪارن تي گهٽ پنهنجي منهن فيصلا وٺڻ جو عادي آهي. هن اليڪشن مهم ۾ به ائين ڪيو. جارچ بش ريپبليڪن پارٽي جي پيداوار هو. ٽرمپ پارٽي جي پيداوار ناهي، ان ڪري فيصلي سازي ۾ شايد پارٽي کي پاڻ سان گڏ نه کڻي هلي. ائين سندس طبيعت آمراڻي لڳي ٿي.
ٻئي پاسي عورتن، اقليتن، ٻاهرين ملڪن مان لڏي آمريڪا ايندڙن جي باري ۾ سندس خيال تنگ نظري وارا آهن. ايتري قدر جو هو ميڪسيڪو ۽ آمريڪا جي وچ ۾ ڀت کڻائڻ جي ڳالهه ڪندو رهيو آهي. ڄڻ اهو نعرو ڏيئي رهيو هجي ته ”آمريڪا صرف آمريڪين جو آهي!“ هي اهڙو ئي نعرو آهي، جهڙو برطانيه جي ماڻهن يورپي يونين ۾ شامل رهڻ يا ڌار ٿيڻ واري ريفرينڊم ۾ ڏنو هو. مطلب ته برطانيه اتي جي رهاڪن لاءِ آهي، باقي يورپي لوڪن لاءِ نه. ٽرمپ جيڪڏهن پنهنجي اعلانيل پاليسين تي عمل ڪري ٿو ته آمريڪا جون ڪمپنيون، يونيورسٽيون ۽ خود سياحت به متاثر ٿيندي. رڳو آمريڪي سياحت جي شعبي ۾ سڌي يا اڻ سڌي طرح 67 لک ماڻهو روزگار سان لڳل آهن. لڳي ٿو ته آمريڪا ۽ برطانيه جون معيشتون ان حد تي پهچي چڪيون آهن، جتي هو پنهنجي ماڻهن جو ”بار“ به مشڪل سان کڻي پيون سگهن. اهڙو وقت سوويت يونين تي به آيو هو، جنهن سوويت يونين کي ٽوڙي ڇڏيو. ڇا واقعي آمريڪي معيشت دنيا جي سرمائيداري فوجداري وارو بار نٿي کڻي سگهي؟ جيڪڏهن ائين آهي ته ان جا ڪهڙا نتيجا نڪرندا؟ ان سان سڄي دنيا جو معاشي ۽ سياسي نقشو ئي تبديل ٿي ويندو. اهو صحيح آهي ته آمريڪا پنهنجي معيشت جي ان ڪساد بازاري مان نڪرڻ گهري ٿو. هن پنهنجون مارڪيٽون چين، انڊيا يا ٻين اهڙن ڪن ملڪن جي سامان لاءِ توڙي اتان ايندڙ پورهيو ڪندڙ توڙي صلاحيت رکندڙ ماڻهن لاءِ کولي ڇڏيون هيون، سي هو بند ڪرڻ جي ڪوشش ڪري رهيو آهي. پر آمريڪي سوسائٽي ۽ معيشت دنيا جي مختلف علائقن ۽ ملڪن تي ايترو گهڻو دارومدار رکي ٿي، جو اها پنهنجي لٺ سرداري وڏيون فوجون، جديد هٿيار رکڻ، مختلف سمنڊن ۾ پنهنجي فوجي موجودگي ۽ برتري کي برقرار رکڻ بنا قائم رکي نٿو سگهي.
ٽرمپ جي لاءِ جتي معيشت جي انهن شعبن کي ترجيح ڏيڻي پوندي، جن جي ضرورت به هجي ۽ ساڳئي وقت نوڪرين ۽ ڪم ڪار جا موقعا به نڪرن، ساڳي طرح هو پرڏيهين لاءِ ائين دروازا کليل نه رکندو. ميڪسيڪو جي وچ ۾ ڀت نه به کڻائي، پر عملي طرح اهڙائي اپاءُ وٺي هو اوباما جي هيلٿ ڪيئر ۽ سوشل سيڪيورٽي جي ٻين اهڙين اسڪيمن ۾ ڪٽوتي ڪري شهرين کي اها پڪ ڏيکاري ته کانئن ٽيڪس هروڀرو نه پيو ورتو وڃي يا اهو ته سندن ٽيڪس فالتو مدن ۽ ماڻهن تي خرچ نه ٿي رهيو آهي. داعش بابت حڪمت عملي کي به نئين سر ڏسڻو پوندو. عين ممڪن آهي ته هو ان لاءِ روس جي مدد حاصل ڪندي شام ذريعي ڪا حڪمت عملي جوڙي. ٽرمپ لاءِ چين وڏو چئلينج بڻيل رهندو. ان جي معيشت جيتري وڌي پئي ۽ هو وڌيڪ خطن توڙي ملڪن ۾ اثر وڌائي رهيو آهي، ان کي روڪڻ هن لاءِ ضروري ٿي پوندو.
وچ اوڀر کان وٺي ڏور هند چيني خطن تائين تيل، واپار ۽ سيڙپ ڪاري وارا موقعا ڪنهن به طرح نه ڇڏيندو. ٽرمپ جي آمريڪا لاءِ وچ اوڀر وارو اشو وڌيڪ گرم رهندو. وچ ايشيا ۽ افغانستان جي خطي واري گرمائش کي هو روس ۽ ايران سان ويجهڙائپ رکي ٺاري يا پنهنجي فائدي ۾ ڪري سگهي ٿو. جڏهن ته ڏکڻ ايشيا توڙي ڏور هند چيني ۾ انڊيا جو رول وڌائي پنهنجي مقصد حاصل ڪرڻ جي ڪوشش ڪري سگهي ٿو. انڊيا ۾ نريندر مودي جي موجودگي هن لاءِ سٺو سنئوڻ ثابت ٿي سگهي ٿو. ان جي ذريعي هو ڪنهن حد تائين چين کي Contrast ڪري سگهي ٿو. پر اهي سڀ ڪم ايڏا سوکا ۽ سولا ناهن، جيترو سولائي سان پني تي لکي سگهجن ٿا. ان لاءِ وڏو هوم ورڪ ڪرڻ ۽ هر خطي ۾ موجود اسٽيڪ هولڊرن جا مفاد ۽ ٽڪراءُ سامهون رکي انهن کي سلهاڙڻ جي ضرورت پوندي. هن صورتحال ۾ پاڪستان لاءِ وڌيڪ ڏکيائي ٿيندي. جتي ”ڊومور- Do moor“ جي فرمائش ته آهي ئي آهي، سوال اهو به آهي ته پاڪستان ان ڏس ۾ ڪيترو هوم ورڪ ڪيو آهي؟ ۽ پنهنجي پاڻ کي بدليل حالتن ۾ ڪيترو بدلائي ٿو؟
sohailsangi@yahoo.com


سهيل سانگي

جمع 11 نومبر 2016ع

Labels: