Sangi سهيل سانگي

سهيل سانگي سنڌي ڪالم ۽ آرٽيڪل About Current political, economic media and social development issues

Wednesday, March 10, 2021

پیپلزپارٹی مائنس آصف زرداری ؟

 سابق صدر آصف علی زرداری کی سیاسی تنہائی اور مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔کہاں وزیراعظم لانے کے دعوا کر رہے تھے لیکن ملک میں انتخابی ماحول بنتے ہی غیر فعال ہوگئے۔آصف زرداری کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اور پاناما کی طرز پر جے آئی ٹی بنائی جارہی ہے۔سپریم کورٹ نے سابق صدرآصف زرداری،ان کی بہن فریال تالپورکو بارہ جولائی کو عدالت میں طلب کر لیا ہے۔ آج کے سیاسی منظر نماے میں پیپلزپارٹی تنہا کھڑی ہے۔ ملکی سطح پر تین بڑے دھارے نواز لیگ، عمران خان اور ،مذہبی جماعتوں کے ہیں وہ کسی بھی دھارے کا حصہ نہیں۔ کبھی آصف علی زرداری نے علامہ قادری کے زریعے عمران خان سے جڑنے کی کوشش کی تھی لیکن کپتان خان نے اسٹیج شیئر کرنے سے انکار کردیا تھا۔ حالیہ پیش رفت کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو سیاست سے مائنس کرنے کی کوششوں میں تیزی آگئی۔نتخابات کے شیڈول جاری ہونے سے قبل پنجاب اور خیبرپختونخوا کے طوفانی دورے کرکے جوڑ توڑ کررہے تھے۔ اپنی پارٹی کا وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ لانے کی باتیں کرنے والے آصف زرداری ملک میں انتخابی ماحول بنتے ہی غیر فعال ہوگئے ہیں۔ میدان میں بلاول بھٹو زرداری اکیلے نظر آرہے ہیں۔ 

ذرائع کے مطابق ملکی سیاسی منظر نامے اور انتخابی میدان میں اہم ترین تبدیلیوں اور بڑے فیصلوں کا وقت ہے۔ پاکستانی سیاست سے ایک اور مائنس ون کی کوششوں کو تقویت دی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی مائنس زرداری کی صورت پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاسی ہمسفر بننے کا عندیہ دیدیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کی سیاسی تنہائی اورپیپلزپارٹی کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔اب وہ پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں،عوامی اجتماعات اور خود اپنے حلقہ انتخاب سے بھی دور ہیں۔آصف علی زرداری خود این ای213 نوابشاہ کی نشست پر امیدوار ہیں اور تاحال اپنے حلقہ انتخاب میں نہیں گئے ہیں۔ انکی ہمشیرہ اور اسی علاقے سے صوبائی نشست پر امیدوار ڈاکٹر عذرا فضل بھی محدود پیمانے پر انتخابی مہم چلارہی ہیں۔آصف علی زرداری نے اپنی سرگرمیوں کو محدود کرلیا ہے اور صرف ٹی وی پروگرامز تک محدود ہیں۔
عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو پنجاب سے کوئی ہیوی ویٹ امیدوار نہیں مل سکے ہیں اور پیپلزپارٹی کا سیاسی کردار محدود ہوتا دکھائی دے رہاہے۔پیپلزپارٹی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری حالیہ دنوں میں ذہنی دباو کا شکار ہیں اور سیاسی معاملات نتیجہ خیز انداز میں نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں جبکہ انکے دائمی امراض کی تکلیف بھی بڑھ رہی ہے ۔
بینکر حسین لوائی کی گرفتاری ایک اہم پیش رفت مانی جاتی ہے۔ اس کیس کو نتیجہ خیز انجام تک لے جانے کے جتن ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس ازخود نوٹس کی سماعت کی۔سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے آصف زرداری اور سندھ میں ’’ آئرن لیڈی ‘‘سمجھی جانے والی ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت بیس افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ سات لوگوں کے نام پر قائم انتیس اکاؤنٹس سے 35 ارب سے زائد کی ٹرانزکشن ہوئیں۔سپریم کورٹ نے سابق صدرآصف زرداری،ان کی بہن فریال تالپور،طارق سلطان،ارم عقیل، محمد اشرف،محمد اقبال آرائیں اوردیگر افراد کو طلبی کے نوٹس جاری کردیئے ہیں۔ 
ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ طارق سلطان کے نام پر 5 اور ارم عقیل کے نام پر دو اکاؤنٹس ہیں۔ محمد اشرف کے نام پر ایک ذاتی اور 4 لاجسٹک ٹریڈ کے اکاؤنٹس ہیں، محمد عمیر بیرون ملک ہیں اور ان کا ایک ذاتی اور 6 اکاؤنٹس حمیرا اسپورٹس کے نام پر ہیں، عدنان جاوید کے 3 اکاؤنٹس لکی انٹرنیشنل کے نام پر ہیں، قاسم علی کے تین اکاؤنٹس رائل انٹرنیشنل کے نام سے ہیں۔ عدالت نے اسٹیٹ بنک کو نجی بینک کی جمع کرائی گئی سات ارب روپے کی ایکوٹی روکنے کا حکم دے دیا۔
اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے چیئرمین حسین لوائی اور نجی بینک کے نائب صدر طلحہ رضا جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزمان نے 7 ارب کی منی لانڈرنگ کی،4 ارب ریکور کر لئے ہیں۔ایف آئی اے کے مطابق سمٹ اور سندھ بینک سمیت تین بینکوں میں 29 جعلی اکاؤنٹس کھولے گئے، یہ اکاؤنٹس انور مجید کے اومنی گروپ کے ملازمین استعمال کرتے تھے۔ صرف سمٹ بینک کے 16 اکاؤنٹس کے ذریعے 20? ارب کا لین دین ہوا۔
اکاؤنٹس میں جمع کرائے گئے پیسوں کے بارے میں ایف آئی اے ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان اکاؤنٹس کو پروجیکٹس سے ملنے والے کک بیکس لینے کیلئے استعمال کیا گیا۔ 
یہ تمام ملبہ زرداری پر گرنے والا ہے۔ لگتا ہے کہ سابق صدر آصف زراری اور ان کی ہمشیرہ کے گرد بھی گھیرا تنگ ہونے جارہا ہے۔
آصف زرداری نے معاملے کو بھانپ لیا تھا۔وہ اکتوبر سے نواز لیگ کے خلاف اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دیتے رہے۔ عمران خان اورعلامہ ہ قادری سے بنانے کی کوشش کی۔ بلوچستان میں زہری کو حکومت توڑنے، عبدالقدوس بزنجو کی حکومت لانے اور سینیٹ اور اس کے چیئرمین کے انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے رہے۔انہیں بانور کرایا گیا کہ عمران خان بطور وزیراعظم اسٹبلشمنٹ کے پسندیدہ نہیں۔ لہٰذا ایک بار پھرپیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ اس فارمولا کے حامیوں نے آصف زرداری کو ایوان صدر پہنچانے کا آئیڈیا مارکیٹ میں بیچنا شروع کردیا۔ بعد میں معاملات بگڑنے لگے تو آصف زرداری آئندہ حکومت اور سیٹ اپ میں اپنے سرکردہ رول سے دستبردار ہو گئے۔ اور کہا کہ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں بھی بیٹھنے کے لئے تیار ہے۔یعنی پی پی پی کو آئندہ سیٹ اپ میں گیم سے آؤٹ نہ کیا جائے۔ 
یہ خیال مسلسل پختہ کیا گیا کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں مبینہ طور پر بڑی کرپشن ہوئی ہے اور یہ حکومتیں عوام کو ڈلیور نہیں کر سکی ۔ لہٰذا اب ان سے نجات کے لیے عمران خان کو اقتدار میں لانا ضروری ہے۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ براہ راست مارشل لاء لگادیا جاتا۔ لیکن ایسے حالات نہیں۔ ادوسرا یہ تھا کہ ’’آئین میں رھتے ہوئے ‘‘ اقدامات کئے جائیں۔ لہٰذا عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے جو بھی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔یعنی عوام پر انحصار کے بجائے حربوں اور چند شخصیات پر انحصار کیا جارہا ہے۔کچھ لوگ اپنے تئیں طے کر لیتی ہیں کہ ملک کے مفاد میں کیا ہے؟ کیا نہیں؟ اور پھر اس پانے طے کردہ ملکی مفاد کے مطابق پورے نظام کو الٹ پلٹ دیتے ہیں۔ 
اس فارمولے کا ایک حصہ مشرف فارمولے کی نقل ہے، جس میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ دونوں آؤٹ تھیں۔ فرق یہ ہے کہ تب آئین معطل کردیا گیا تھا۔ براہ راست فوج حکومت میں آگئی تھی۔ مشرف نے بھی ان روایتی سیاست دانوں سے نجات حاصل کر نے کی ٹھانی تھی۔اس طرح کے براہ راست تجربے ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف کر چکے ہیں۔جبکہ چھوٹے موٹے تجربے بعض مواقع پر کئے جاچکے ہیں۔ لیکن کبھی بھی ان کا اچھا نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ 
نواز شریف نے’’ خلائی مخلوق‘‘ پر سیاسی انجنیئرنگ کا الزام لگایا تھا کہ ان کے ساتھیوں پر پارٹی چھوڑنے اور پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا تھاکہ یہ کیسی جمہوریت ہوگی، جب لوگ آزادانہ طور پر فیصلے نہ کر سکیں۔ اب یہی بات پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک مخصوص جماعت کو کامیاب کرانے کے لئے لوگوں پر پیپلز پارٹی کو چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو بھی اب کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام پر اعتماد کیاجائے اور انہیں فیصلہ کرنے دیا جائے۔ دونوں جماعتوں کو ایک جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ یعنی دونوں جماعتوں کو آئندہ سیٹ اپ میں آؤٹ کیا جارہا ہے۔تعجب ہے کہ یہ سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی دونوں جماعتوں کی قیادت مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
پیپلزپارٹی کے ایک اور ذریعہ کا کہنا ہے کہ مائنس ون کا مطالبہ زور پکڑتا جارہاہے اور امکان ہے کہ پیپلزپارٹی کو مائنس ون کا دکھ جھیلنا پڑے۔ ملک میں ایک نئے منظر نامے رونما ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ جس کو جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’ نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم تینوں ناکام ہو چکی ہیں‘‘، ایم کیو ایم مائنس ون ہونے کے بعد گوپوں میں تقسیم ہو چکی، عدلیہ کے دو فیصلوں کے بعد نواز لیگ بھی مائنس ون ہو گئی۔ پیپلزپارٹی باقی تھی، اب اس کے خلاف بھی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔
خیال ہے کہ پیپلزپارٹی سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مائنس کیا جارہا ہے۔اگر ایسا ہے تو پیپلزپارٹی کی عوام میں قبولیت بڑھ سکتی ہے۔ ایک مرتبہ اس قبولیت کا الیکشن میں فائدہ مل گیا، تو پھر پارٹی کی قیادت واپس بڑوں کے پاس چلی جائے گی۔ لیکن اسٹبلشمنٹ پیپلزپارٹی کو ایسا کوئی فائدہ دینا نہیں چاہے گی۔ 
حیران کن بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی سندھ میں اپنے امیدواروں کو دھمکیاں ملنے کا شکوہ کرچکے ہیں اورآصف زرداری بھی اپنے روایتی انداز سیاست میں کھل کر کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ادھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اپنے دورہ کراچی میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ مائنس زرداری کی صورت پیپلزپارٹی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاسکتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلوں کی منصوبہ بندی ہورہی ہے پیپلزپارٹی کے چند سینئر رہنماؤں کے بقول خطرے کی گھنٹی کی اواز سنائی دے رہی ہے۔ 
2018

Labels: , ,

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home