Sangi سهيل سانگي

سهيل سانگي سنڌي ڪالم ۽ آرٽيڪل About Current political, economic media and social development issues

Wednesday, March 10, 2021

Rafiq Khoso ka daur رفیق کھوسو کا دور

 رفیق کھوسو کا دور

۔۔۔۔ 

رفیق کھوسو نے بدلتی دنیا دیکھی۔ اور یہ تبدیلی کس طرح عوام دوست اور  مجموعی طور پر انسانیت کے فائدے میں ہو سکتی ہے؟ اس  میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔

سندھ میں طلباء تحریک میں  اسلح گردی متعارف ہوئی۔  وزیر زیدی کا اغوا، کنووکیشن کا واقعہ، طلباء کے گرہوں میں مسلح تصادم 

ڈی پی آر کے تحت  طلباء، شاعروں ادیبوں  اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں 

قوم پرستی بھی نئی شکل لے رہی تھی۔ جیئے سندھ محاذ بنا۔ قوم پرست اور کمیونسٹ الگ ہوئے۔ قوم پرست کمیونسٹوں کو  اتحادی بننے کے بجائے حریف سمجھنے لگے تھے۔ حالانکہ لیفٹ کے لوگ قوم پرستی کی ہی سیاست کر رہے تھے۔ 

مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلزپارٹی اور دیگر لیفٹ کی جماعتوں نے انتخاب جیتا۔ 

بھٹو شیخ مجیب سے اقتدار میں شراکت کا مطالبہ کررہا تھا۔  

 نیپ اور جے یو آئی کا معاہدہ ہوا۔ دو صوبوں میں حکموتیں بنیں۔ 

دوسری طرف دائیں بازو کی جماعتیں سرگرم ہوئیں۔  پاگارا کی قیادت میں اپریل باہتر میں سندھ اسلامی محاذ بنا۔ صوبہ سرحد میں بھٹو نے مسلم لیگ قیوم گروپ سے اتاد کیا۔ 

سندھ میں زبان کے مسئلے پر اختلاف  پیدا ہوئے اور لسانی  فسادات  پھوٹ پڑے۔ جون  انیس سو باہتر میں مزددوروں میں بے چینی ابھرنے لگی۔جولائی باہتر میں زبان کے مسئلے پر ہڑتال  ہوئی۔ کراچی میں پولیس اور مزدوروں میں تصادم متعدد مزدور ہلاک  ہوئے۔ یوں شہری آبادی پیپلزپارٹی سے دور ہوتی چلی گئی۔ پانچ ماہ بعد معراج محمد خان وزارت سے مستعفی ہو گئے۔ یوں  بائیں بازو  کے وہ گرہ جو چین نواز زمرے میں آتے تھے اور جنہوں نے پیپلزپارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی تھی یا اس کی حمایت کر رہے تھے، وہ پیپلزپارٹی سے علحدہ ہوگئے۔ ابھی نیا آئین بننا باقی تھا۔ اس سے قبل ہی صورتحال یہ بنی کہ ستمبر انیس سو باہتر بھٹو کا یہ بیان سامنے آیا کہ ”نیپ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔“  فروری تیہتر بزنجو ارباب خلیل کو گورنری کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں نیپ اور جے یوآئی کی صوبائی کی حکومتیں ختم کردی گئیں۔ اب ایسی  صورتحال بن رہی تھی کہ ملک کی جمہوری و قوم پرست قوتوں اور بھٹو کے درمیان فاصلے بڑھ رہے تھے۔نیپ کے سربراہ خان عبدالولی خان کا یہ بیان آیا کہ”بھٹو کے خلاف  میں شیطان سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہوں۔“لہذا فروری تیہتر میں یو ڈی ایف بنا۔ لیاقت باغ کا سانحہ ہوا جہاں  اپوزیشن  کے جلسے پر فائرنگ کی گئی جس کء نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ 

دس اپریل 1973 کو آئین منظور  ہوا۔ لیکن اس آئین  پر عمل درآمد سے پہلے سیاسی ماحول گرم ہو چکا تھا۔ اور  بھٹو کے خلاف مخالفت کی لکیریں گہری اور واضح ہو رہی تھی۔ بھٹو اور قوم پرست آپس میں نہیں بن رہے تھے۔ اپریل میں  ہی سندھ یونیورسٹی میں کنووکیشن کا واقعہ  ہوا، جس میں سندھ کی قوم پرست تنظیم نے  آئین  کے حولاے سے احتجاج کرتے ہوئے، وفاقی وزیر قانون عبدلاحفیظ پیرزادہ اور گورنر سندھ بیگم رعنا لیاقت علی کیساتھ بدتمیزی کی۔ائندہ چند روز میں  جی ایم سید کو ڈی پی آر کے تحت گرفتارکرلیا گیا۔چودہ اگست  تیہتر کو آئین نافذہوا اور اس کے چند روز بعد اگست میں نیپ کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ معاملہ یہیں پر نہیں  رکا۔ اکتوبر تیہتر چھ حروں کا قتل ہوا جس نے بھٹو کے آبائی صوبے سندھ میں پاگارا اور بھٹو  کے درمیان جھگڑے کو تیز کردیا۔ اسی سال اکتوبر میں سندھ یونیورسٹی میں طلباء کے دوگروہوں میں تصادم  میں دو طلباء ہلاک ہوئے۔اس واقعہ نے سندھ یونیورسٹی اور طلباء سیاست میں تشدد کو متعارف کرایا۔

ملک دائیں بازو کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ پریس پر پابندیاں 

فروری پچہتر میں  نیپ پر پابندی لگا دی گئی۔ اور مرکزی رہنماؤں  ولی خان، غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیر بخش مری،  ارباب سکندر سمیت گرفتار کرلیا گیا۔آتھ ماہ بعد سپریم کورٹ نے پابندی کو جائز قرار دیا۔ مارچ میں ولی خان، اجمل خٹک، اور دیگر 43 رہنماؤں کے خلاف مقدمہ  کا اغاز ہوا۔

مئی انیس سو پطہتر کو سندھ میں کتب و رسائل پر پابندی عائد کردی گئی۔

پنجاب مین پیپلزپارٹی کے پرانے لوگ علحدہ ہونے لگے حنیف رامے، کھر، وہ پاگارا سے جا ملے۔ میر رسول بخش تالپور  نے بھی علحدگی اختیار کر لی۔

چھ  نومبر پچہتر کو شیرباز مزاری کی قیادت میں نئی پارٹی کا عمل آیا بیگم نسیم ولی سیکریٹری۔ اس کا مقصد بھٹو دشمنی اور ولی خان اور ساتھیوں کی رہائی تھا۔ اتھہتر کے اوائل میں  افادیت ختم ہو گئی۔  اور غیر فعال ہو گئی۔

 چھ فروری چھہتر اسد مینگل کا قتل۔ ٹکا خان نے بتایا کہ جنرل ضیاء الحق، جنرل ارباب جہانزیب،  اور جنرل اکبر ہیں۔ بعد مین بھٹو نے جب جنرل ضیا کو طلب کر کے پوچھا  کہا کہ فوجی حکام اس واقعہ پر شرمندہ ہیں اور وزیراعظم سے معافی کے خواستگار ہیں۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ضیاء حکموت نے  اس واقعہ کے لئے ایف ایس ایف کو  ذمہ دار ٹہرایا

اپریل چھاہتر کو ولی خان اور دیگر کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ ضیاء الحق کے تقرر کے بعد  ایک لہر دوبارہ آئی۔ کھر اور احمد رضا قصوری دوبارہ پیپلزپارٹی مین آگئے۔  

اپریل چھہتر میں خان آف قلات کے ساتھ کھڑے ہو کر بلوچستان میں سرداری نظام کے خاتمے کا  اعلان کیا 

۔۔۔

 انگریز کی تربیت یافتہ سول اور ملٹری بیوروکریسی  اور جاگیردارانہ سوچ ورثے میں ملی۔  لہٰذا پنجاب میں مخصوص طرز سیاست  متعارف ہوا۔اور پنجاب اپنے طبقاتی مفادات کے لئے  طاقت کا حلیف بنے۔ 

پاکستان نے پہلی کروٹ بدلی تو ملک میں جمہوریت کے بجائے مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور صوبوں کو اختیارات دینے کے بجائے ون یونٹ کا طوق ان  کے گلے میں ڈال کر حقوق سے محروم کردیاگیا۔ ایوب خان کے دس سالہ مارشل لائی دور میں ملک میں سرکار کی سرپرستی اور مکمل مالی امداد سے سرمایہ داری پروان چڑھی۔ ایوب خان کے زرعی صلاحات اور صنعتکاری کے نتیجے میں نئے طبقات نے جنم لیا۔ نئے طبقات کے جنم لینے سے پرانے طبقات اور تضادات ختم تو نہیں ہوئے۔ تاہم شکلیں کچھ بتدیل ہوئیں اور ساتھ ہی نئے تضادات نے جنم لیا۔ لہٰذا قومی سوال، طبقاتی سوال اور جمہوری سوال گڈمڈ ہوتے رہے۔ کبھی ساتھ تو، کبھی الگ ہوتے رہے۔ مجموعی طور پر سیاستدانوں کو ملکی معاملات سے دور رکھا گیا۔ 

دوسری کروٹ نے ایوب شاہی کو اٹھاکر پھینکنے کے ساتھ ساتھ ون  یونٹ کو بھی توڑ دیا اور ساتھ ساتھ انتخابات اور جمہوریت کا راستہ کھلا۔ اور مزدوروں اور کسانوں کے مسائل سیاست کے اہم بیانیئے کا حصہ بنے۔ سوشلزم کا نعرہ ساٹھ کے عشرے کا مقبول نعرہ تھا۔ اگرچہ جمہوریت، صوبوں کے حقوق  کے مطالبات پہلے نمبر پر تھے۔لیکن ذوالفقار علی بھٹو  کے سوشلزم  کے نعرے کو عوام میں زیادہ پزیرائی ملی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ صوبوں  کے حقوق کی تحریک چلانے والی جماعتیں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی بھی بائیں بازو کے نظریات رکھتی تھی۔ بلکہ ان جماعتوں میں کمیونسٹ بھی موجود تھے۔ پاکستان کے حکمران طبقات نے  بہت ساری چیزیں مان لیں جس میں ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں کے بجائے حق بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات منعقد کرانا،  یعنی ”ون مین ون ووٹ“،  ون یونٹ کا خاتمہ،  قابل ذکر ہیں، لیکن وہ اپنے ہاتھوں سے اقتدار اور فیصلے سازی جانے نہیں دے رہا تھا۔  لہذا ایوب خان کے  جانشین یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا، جس میں آئندہ منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کو پابند کیا کہ وہ حکمران ٹولہ کی شرائط مانے۔

 انخابات کے نتائج حکمران ٹولے کے پیشگوئیوں اور توقعات کے برعکس آئے۔ 


 ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے سول بیوروکریسی اور فوج دونوں کی ساکھ مجروح ہوئی۔جنرل یحییٰ خان  کے پاس نمائندہ نظر آنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی  کے حوالے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ بھٹو کی انتخابی طاقت، صرف پنجاب اور سندھی تک ہی محدود تھی۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو حمایت حاصل نہیں تھی،  مطلب بھٹو سول بیوروکریسی اور فوجی ہائی کمان کی حمایت کے بغیر مرکزی اپریٹس کا کام نہیں کرسکتا ہے۔بنگلادیش بننے یا مشرقی پاکستان کے علحدہ ہونے کے بعد اب باقی ماندہ پاکستان میں پنجاب کو اکثریت حاصل تھی۔ لہٰذا اب جمہوریت قائم کی جاسکتی تھی۔ یہی بات 73 ع کے آئین کی بنیاد بنی جس کو سیاسی اصطلاح میں متفقہ آئین بھی کہا جاتا ہے۔آئین جس شکل میں منظور ہوا، وہ ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے غنیمت تھا۔کسی حد تک  چھوٹے صوبوں کو”مراعات“ دی گئیں۔اس آئین نے  بطور مجموعی وفاقی پارلیمانی  جمہوریت یں کی علامت پر مبنی سیاسی نظام کے لئے ایک نقشہ فراہم کیا۔ لیکن بھٹو آئین کی وفاقی دفعات پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے۔پیپلزپارٹی کے ساتھ عوام تو تھے لیکن وہ واقعتا جمہوری اور فعال پارٹی نہ بن سکی جو ملک کو درپیش چیلینجوں کو مقابلہ کرسکے۔لہٰذا بھٹو نے ریاست کے سخت بازوؤں پر بھروسہ کیا۔ سیاسی مخالفت کو ختم کرنے کے اقدامات کئے۔سیاسی طور پر لگ بھگ انہوں نے ایوب خان جیسی ہی پالیسی اختیار کی۔بھٹو کی مقبول بیان بازی اور ان کی کسی حد تک اقتصادی معاشی اصلاحات کی معمولی کامیابیوں کے مابین فرق نے بھٹو کی حمایت کو ایک  سیاسی بنیاد مستحکم کرنے سے روک دیا۔صورتحال جا کر یہ ٹہری کہ  1971 میں کے بنگال کے واقعات کے بعدسول اور مسلح بیوروکریسی اور فوج کی ساکھ متاثر ہوئی تھی۔وہ واپس ریاستی ڈھانچے کے سب سے اہم ستون بن رہے تھے۔بھٹو کا ملک کی سیاسی جماعتوں سے فاصلہ بڑھنے لگا تھا۔ یہ فاصلہ خود پیپلزپارٹی کے اندر بھی بڑھ رہا تھا، جہاں سے سوشلسٹ نظریات کے حامی رہنما اور کارکنان  یا خارج کئے جارہے تھے یا وہ خود کو دور کرتے جارہے تھے۔ 

 جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں، بنگال  کے واقعات جنگ کی وجوہات جاننے کے لئے،  عدالتی کمیشن تشکیل دیا۔

جولائی 1972 میں، بھٹو نے ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے شملہ معاہدہ کیا اور پاکستان کی مسلح افواج کے ترانوے ہزاراہلکاروں کو واپس لایا، مغربی پاکستان کاپانچ  ہزار میل مربع رقبہ کو ہندوستان  سے واپس لیا جس پر ہندوستان نے جنگ کے دوران قبضہ کرلیا تھا۔

جنوری 1972 کو، بھٹو نے آئرن اور اسٹیل، ہیوی انجینئرنگ، ہیوی الیکٹریکل انجینئرنگ، پیٹرو کیمیکلز، سیمنٹ اور عوامی سہولیات سمیت تمام بڑی صنعتوں کو قومیانے کا اعلان کیا۔ مزدوروں کے زیادہ حقوق اور ٹریڈ یونینوں کی طاقت کے ساتھ ایک نئی لیبر پالیسی کا اعلان کیا گیا۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے لئے بھٹو کا دور بدترین رہا۔

1974 میں، پاکستان کی پارلیمنٹ نے 1973 کے آئین کی منظوری دی۔ 1958 کے بعد پہلی بار، ملک کو بطور وزیر اعظم بھٹو کے ساتھ پارلیمانی جمہوریت میں واپس منتقل کیا گیا۔

بلوچستان میں بدامنی

بنگلہ دیش کے علحدگی کے بعد 1970 کی دہائی  میں بلوچستان  کا معاملہ  حرارت پکڑنے لگا۔ پاکستان آرمڈ فورسز صوبہ بلوچستان میں فوجی دستے قائم کرنا چاہتی تھی،  بلوچ اور پشتون قوم پرستوں نے بھی اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے 1973 کے پاکستان آئین کی متفقہ منظوری کے بدلے اپنے ''صوبائی حقوق'' کا مطالبہ کیا تھا۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان نے نیپ-جے یو آئی اتحاد میں شامل ہونے پر، انہوں نے کوئٹہ میں وزیر اعلی عطاء اللہ مینگل اور پشاور میں مفتی محمود کی سربراہی میں صوبائی حکومتوں کے ساتھ بات چیت سے انکار کردیا۔ کشیدگی پھیل گئی اور مسلح مزاحمت شروع ہوگئی۔

سیاسی عدم استحکام کا مقابلہ کرتے ہوئے، بھٹو کی مرکزی حکومت نے چھ مہینوں کے اندر دو صوبائی حکومتوں کو برخاست کردیا، دو وزرائے اعلی، دو گورنرز اور اڑتالیس ایم این اے اور ایم پی اے کو گرفتار کرلیا، سپریم کورٹ سے نیپ پر پابندی عائد کرنے کا حکم ملا اور ان سب پر اعلی غداری کا الزام لگایا، خصوصی طور پر تشکیل شدہ حیدرآباد ٹریبونل کے ذریعہ مقدمہ شروع کیا گیا۔

بھٹو ایک متنازعہ شخصیت بنے ہوئے ہیں، ان کو ان کی قوم پرستی اور سیکولر انٹرنیشنلسٹ ایجنڈے کے لئے سراہا جاتا ہے، پھر بھی ان کو اپنے سیاسی مخالفین کو ڈرانے اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر تنقید کی جاتی ہے۔

بھٹو کو بتایا گیا کہ داخلی محاذ پر، بلوچ، سندھی، پنجابی، اور پشتون قوم پرستی عروج پرہے۔ پاکستان کو متحد رکھنا مشکل سمجھتے ہوئے، بھٹو نے کسی بھی علیحدگی پسند تحریکوں پر مہر لگانے کے لئے پوری ذہانت اور انٹلیجنس اور فوجی آپریشن شروع کیے۔ 

 سن 1973  اور ستمبر 1974 میں بڑی محاذ آرائی  رہی۔ دریں اثناء  عراقی سفارت خانے میں گولہ بارود کی برآمدی کا واقعہ ہوا۔ 

ایران  نے بلوچ مزاحمت کے پھیلاؤ کے خوف سے پاکستان فوج کی مدد کی۔ 

آئین میں دوسری ترمیم نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے غیر مسلم کی اصطلاح کی تعریف کی۔ تیسری ترمیم کے تحت نظربند افراد کے حقوق محدود تھے جبکہ چوتھی ترمیم کے تحت سیاسی مخالفین کو ریلیف دینے کے لئے عدالتوں کے اختیارات اور دائرہ اختیار کو کم کیا گیا تھا۔ پانچویں ترمیم 15 ستمبر 1976 کو منظور ہوئی، جس میں عدلیہ کے اقتدار اور دائرہ اختیار کو کم کرنے پر توجہ دی گئی۔ چھٹی ترمیم کی بنیادی شق نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی میعاد کو ریٹائرمنٹ کی عمر  بڑھا دی گئی۔بھٹو حکومت نے صنعتی شعبے میں متعدد اصلاحات کیں۔ اس کی اصلاحات دوگنا تھیں: قومی تحویل میں لینا، اور کارکنوں کے حقوق میں بہتری

قومیانے کاا اگلا بڑا اقدام جنوری 1974 کو ہوا، جب بھٹو نے تمام بینکوں کو قومی کردیا تھا۔سیریز کا آخری مرحلہ ملک بھر میں تمام آٹے، چاول اور روئی کی ملوں کو قومی بنانا تھا۔ یہ قومیانے کا عمل اتنا کامیاب نہیں تھا جتنا بھٹو کی توقع میں تھا۔


 اگرچہ بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 1977 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن پاکستان قومی اتحاد - نو جماعتوں کے اتحاد نے ان پر ووٹ میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔ پُر تشدد شہری بدامنی نے جنرل ضیاء الحق کے ماتحت فوج کو سیاسی میدان میں ایک زبردست واپسی کا بہانہ دیا اور 5 جولائی 1977 کو پاکستان کو پھر سے فوجی حکمرانی میں رکھا گیا اور 1973 کا آئین معطل کردیا گیا۔

اقتدار سنبھالنے پر جنرل ضیاء نے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی اور پاکستانی ریاست اور معاشرے کو”اسلامی طرز“ پر ڈھالنے  کے عزم کا اظہار کیا۔ اپریل 1979 میں بھٹو کو قتل کے الزامات میں پھانسی دی گئی اور پیپلز پارٹی کی باقی قیادت کو جیل میں بھیج دیا گیا یا جلاوطن کردیا گیا۔ غیر جماعتی انتخابات کرانے اور اسلام پسندی کی پالیسیوں کا ایک سلسلہ شروع کرکے، ضیا نے پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کو قانونی حیثیت دینے کی امید میں ایک مقبول حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

 دسمبر 1979 میں افغانستان پر سوویت حملے کے نتیجے میں پاکستان کے فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے بعد جنرل ضیاء کی حکومت کو عالمی سطح پر قبولیت ہوئی۔ اگرچہ پاکستان تب  سیٹو اور سینٹو دونوں سے باضابطہ طور نکل چکا تھا اور غیرجانبدار تحریک میں شامل ہو گیا تھا۔سرمایہ دار ممالک  کے پاس اہم فرنٹ لائن ریاست کی حیثیت  بننے کے بعد پاکستان امریکی فوجی اور مالی امداد کا ایک بڑا وصول کنندہ  بن گیا۔ اس عرصے میں ملک کے اندر عدم اطمینان کی  لہریں اٹھتی رہیں۔

اگرچہ بڑی معرکہ آرائی ٹوٹ گئی تھی، نظریاتی فرقوں کے سبب سپلینٹر گروپ بننے اور مستقل طور پر زور پکڑنے کی وجہ بن گئی۔ 1977 میں بھٹو جنرل ضیاء الحق  دور میں بھی  بڑے پیمانے پر سول نافرمانی باقی رہی۔ اس کے بعد فوجی حکومت نے جنرل رحیم الدین خان کو صوبہ بلوچستان میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ جنرل رحیم الدین کی سربراہی میں صوبائی فوجی حکومت نے مرکزی حکومت سے الگ ایک الگ وجود اور فوجی حکومت کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل رحیم الدین خان دونوں نے اسلحہ ترک کرنے کے خواہشمند افراد کوبلوچستان میں عام معافی دینے کے اعلان کی حمایت کی۔ تب جنرل رحیم الدین نے جان بوجھ کر نواب اکبر خان بگٹی اور عطا اللہ مینگل کو صوبائی پالیسی سے الگ تھلگ کردیا۔

 انیس سو تیراسی میں ایم آرڈی کی تحریک چلی۔ جس نے ضیاء الحق  کی قانونی اور سیاسی حیثیت کو چیلینج کیا۔ تو دسمبر 1985  میں یک متنازعہ ''اسلامی'' ریفرنڈم میں اپنی سیاسی  حیثیت کی تصدیق کرانے کی کوشش کی۔ اسکے بعد، صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ بڑی سیاسی جماعتوں نے غیر جماعتی  پلیٹ فارم کی وجہ سے 1985 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی میں امیدواروں نے مقامی امور پر توجہ دی جس نے امیدواروں کی اکثریت کو خاص پارٹیوں سے وابستہ کردیا۔ صدر ضیاء کا پہلا اقدام 1973 کے آئین میں ایسی ترامیم متعارف کروانا تھا جو پارلیمانی نظام پر ان کے اقتدار کو محفوظ بنائے۔ آٹھویں ترمیم جمہوری نظام پر لوگوں کے اعتماد کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ نکلی۔ اب صدر کسی بھی قدم اٹھانے کے لئے مکمل کنٹرول اور طاقت کے مالک ہوسکتے ہیں، جو ان کے خیال میں قومی سالمیت کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری تھا۔ اگلے بارہ سالوں تک صدور نے اس ترمیم کو متعدد وزرائے اعظم کو ان کے عہدے سے بے دخل کرنے کے لئے استعمال کیا، جس کی بنیادی وجہ اقتدار میں تبدیلی سے متعلق ذاتی جدوجہد یا عدم تحفظ کا ہے۔

 1973 کے آئین میں کئی ترمیم کا سلسلہ متعارف کرانے کے بعد، ضیاء نے آخر کار مارشل لا اٹھا لیا اور پاکستان میں ایک نئے جمہوری عہد کے آغاز کا اعلان کیا۔

یہ نیا جمہوری دور پاکستان کی سابقہ سیاسی تاریخ کی طرح ہی ہنگامہ خیز تھا۔ 

1985 کے انتخابات کے بعد، محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ انہوں نے فوج سے سول اتھارٹی میں آسانی سے منتقلی کو فروغ دیا، ضیاء اور پارلیمنٹ کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ 

 لیکن 29 مئی 1988 کو صدر ضیاء نے قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا اور آئین کے 58-2-B آرٹیکل کے تحت وزیر اعظم جونیجو کو ہٹا دیا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ جونیجو اپنے منصب کو خراب کرنے کے لئے ان کے خلاف سازشیں کررہا تھا۔ انہوں نے قومی اسمبلی کو بدعنوانی اور اسلامی طرز زندگی کو نافذ کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا۔

جنرل ضیا ایک بار پھر  انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کروانا چاہتے تھے جیسا کہ 1985 میں ہوا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اس کو برقرار رکھا کہ یہ آئین کی روح کے خلاف ہے۔ اسلام کے نام پر سیاسی نظام کی تشکیل نو کے لئے انتخابات ملتوی کرنے کی ضیا کی تجویز کے نتیجے میں سیاسی الجھن پیدا ہوئی۔ یہ خدشہ تھا کہ ضیا مارشل لاء نافذ کرسکتا ہے اور مسلم لیگ ضیا اور جونیجو کے حامیوں میں تقسیم ہوگئی۔ یہ سب اس وقت تعطل کا شکار تھا جب اگست 17 کو ضیاء کا ہوائی جہاز کے حادثے میں انتقال ہوگیا تھا۔

غلام اسحاق خان نے سینیٹ کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے حلف لیا اور انتخابات کا  اعلان کیا۔یہ بات باعث حیرت تھی کہ فوج آسانی سے اقتدار سنبھال سکتی  تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔نومبر 1988  میں پندرہ  برس کے بعد پہلی بار سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم پر مبنی  انتخابات ہوئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نشستوں کی واحد سب سے بڑی ہولڈر بن کر ابھری۔ مشروط طور پر بینظیر بھٹو کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔یہ شرائط بہت کڑوی تھیں۔

1990 میں صدر  غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کو آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت برطرف کردیا۔ چنانچہ ایک بار پھر دو سال بعد ہی انتخابات ہوئے۔

پاکستانی عوام جمہوری نظام پر اعتماد کھو رہے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ یہ بدعنوان، بدحواس ہے اور فوجی اور بیوروکریٹک اشرافیہ کی اسکوبلیز پر مبنی ہے۔ اس رویئے کو اس حقیقت سے تقویت ملی کہ 1990 میں نواز شریف کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا، اور 1993 میں برطرف کیا گیا تھا حالانکہ انہوں نے آزادانہ سرمایہ کاری کی تھی، ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا تھا

 صدر غلام اسحاق خان پر شریف برطرفی میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ سازش کرنے کا الزام تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی اور شریف کو غیر آئینی، شریف اور قومی اسمبلی کی بحالی کو غیر آئینی قرار دیا۔ اس ایکٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدر غالب اختیار نہیں تھے بلکہ اس کے بعد ہونے والے واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ حکومت کتنی غیر مستحکم ہے۔ ر

 اس صورتحال نے نظام میں ہلچل مچا دی جس کے نتیجے میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے مداخلت کی۔جنرل کاکڑ فارمولہ  کے مطابق صدغلام اسحاق خان ر اور وزیر اعظم  نواز شریف دونوں مستعفی ہوئے  اور نئے انتخابات کا انتظام کیاگیا۔

 اس انتخاب میں مینڈیٹ انہی کھلاڑیوں نے تقسیم کیا تھا ایک بار پھر پیپلز پارٹی نے اکثریت کی نشستوں کا دعوی کیا اور بھٹو کو وزیر اعظم کے طور پر رکھا گیا۔ وہ فاروق احمد خان لغاری کو صدر منتخب کرنے میں کامیاب رہی،ان کا خیال تھا کہ ان کی پارٹی کے صدر فاروق لغاری انہیں آتھویں ترمیم کی تلوار سے محفوظ رکھیں گے۔ چیف جسٹس اور صدر دونوں ہی حکومت میں اپنے منصب کی خود مختاری کو برقرار رکھنا چاہتے تھے، جبکہ بینظیر بھٹو سیاسی نظام کو زیر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ صدر لغاری نے جلد ہی انہیں سپریم کورٹ کی حمایت سے برخاست کردیا۔ 

 آئین میں تیرہ ترمیم کو متعارف کرانے کے ساتھ مسلم لیگ نے اپنی پارلیمانی اکثریت کو سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلی کے لئے استعمال کیا۔ تیرہویں ترمیم نے مرکزی حکومت کے اقتدار کی حیثیت سے پارلیمنٹ کی بحالی کے دوران صدر کے اقتدار کو برائے نام سربراہ برائے مملکت تک محدود کردیا۔ اس ترمیم نے بنیادی طور پر سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے کی کوشش میں آرٹیکل آٹھ کے لئے چیک اینڈ بیلنس کا طریقہ کار تشکیل دیا تھا۔ 1999 تک آٹھویں ترمیم کو ان رکاوٹوں سے دور کردیا گیا جن سے صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے یا وزیر اعظم کو برخاست کرنے کا اختیار دیا گیا۔

ہنگامہ

وزیر اعظم نواز شریف بہت سے محاذوں پر نامنظور ہو رہے تھے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور آرمی چیف کو آٹھویں ترمیم میں ترمیم کے فورا  بعد ہی مجبور کردیا تھا، وہ پریس پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ آرمی چیف، جہانگیر کرامت، بہت سارے افراد میں شامل تھے جو نواز شریف کی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان تھے، انہوں نے سول حکومت کو متوازن بنانے کی کوشش میں فوج کو ملک کے فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ دو دن بعد اس نے جنرل پرویز مشرف کو اپنے عہدے پر رکھنے سے استعفیٰ دے دیا۔ مشرف ہندوستان کے ساتھ کشمیری بحران کے ایک اہم حکمت عملی تھے۔ اسے جلد ہی شبہ ہوا کہ انہیں کشمیر میں اپنی جارحانہ جدوجہد میں سول حکومت کی سیاسی حمایت حاصل نہیں ہے۔نواز شریف کی کشمیری حزب اختلاف میں عدم دلچسپی، بڑھتے ہوئے گروہوں کے تنازعات، دہشت گردی نے مشرف کو سول  حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے بغاوت کی رہنمائی کرنے کا جواز فراہم کیا۔ 12 اکتوبر 1999 کو انہوں نے شریف اور مسلم لیگ کو کامیابی کی بنیاد پر اس بنیاد پر بے دخل کردیا۔

 لیکن پرویز مشرف نے اکتوبر 2002 تک انتخابات کے توسط سے قومی اسمبلی کی بحالی سے انکار کردیا تھا، یہ ایک آخری تاریخ تھی جو سپریم کورٹ نے مقرر کی تھی۔ جولائی 2001 میں، مشرف نے پاکستانی حکومت کے اندر اپنے اختیار کو قانونی حیثیت دینے کے لئے ہندوستانی وزیر اعظم سے ملاقات سے قبل خود کو صدر قرار دے دیا۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان کے ذریعے تمام علاقائی عسکریت پسند اسلامی دھڑوں کو واپس بلا لیا ہے اور انہیں حوصلہ دیا ہے کہ وہ اپنے اسلحہ مرکزی حکومت کو واپس کردیں۔

 اب وہ دہشت گردی کے خلاف اتحاد میں امریکی حکومت اور مغربی دنیا کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے افغانستان کے پڑوسیوں اور پاکستان کے اندر موجود قبائلی گروہوں کے ساتھ عجیب و غریب حیثیت میں ہے جو نسلی، نظریاتی اور سیاسی طور پر طالبان اور اسامہ بن لادن سے ہمدردی رکھتے ہیں۔


Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home