Sangi سهيل سانگي

سهيل سانگي سنڌي ڪالم ۽ آرٽيڪل About Current political, economic media and social development issues

About Me

Name: Sangi

View my complete profile

Recent Posts

  • آفت جي خدشي جي انتظام ڪاري
  • Thar in Dawn
  • مضبوط معيشت لاءِ درست پاليسين جي ضرورت
  • معاشي ۽ سياسي پاليسين کي خام خالي مان ڪڍڻ جي ضرورت
  • ملڪي جمهوريت لاءِ هڪ ٻيو موقعو
  • تبديلي لاءِ محلاتي سازشون شروع
  • مني بجيٽ، نواز شريف جي واپسي ۽ حڪومتي تبديلي
  • ٿر عدالتي حڪم جي اوسيئڙي ۾ ويهي؟
  • ايم ڪيو ايم وڏي سُر ۾ احتجاج ڇو ڪيو؟
  • شاگرد يونين قانوني طور بحال، عمل به يقيني بڻائجي

Archives

  • March 2006
  • October 2007
  • February 2008
  • May 2008
  • December 2008
  • February 2009
  • March 2009
  • October 2009
  • April 2010
  • December 2010
  • May 2011
  • January 2014
  • February 2014
  • April 2014
  • April 2015
  • June 2015
  • July 2015
  • October 2015
  • November 2015
  • December 2015
  • March 2016
  • April 2016
  • May 2016
  • June 2016
  • July 2016
  • March 2017
  • July 2017
  • September 2017
  • October 2017
  • December 2017
  • June 2018
  • July 2018
  • August 2018
  • September 2018
  • October 2018
  • December 2018
  • January 2019
  • February 2019
  • March 2019
  • April 2019
  • May 2019
  • June 2019
  • July 2019
  • August 2019
  • September 2019
  • October 2019
  • November 2019
  • December 2019
  • January 2020
  • February 2020
  • April 2020
  • December 2020
  • February 2021
  • March 2021
  • June 2021
  • August 2021
  • September 2021
  • October 2021
  • November 2021
  • December 2021
  • March 2022
  • April 2022
  • March 2023
  • April 2023
  • Current Posts

Powered by Blogger

Subscribe to
Posts [Atom]

Wednesday, March 10, 2021

Imran Khan-Sindh,

 میرے دل میرے مسافر سہیل سانگی 

عمران خان نے 2016 میں سندھ میں اپنی مہم کا آغاز اس نعرے سے کیا تھا کہ سندھ کے لوگ پیپلزپارٹی پر اعتماد نہیں کرتے۔ اور اب براہ راست پارٹی کی قیادت کو نشانہ بنایا اور کہا کہ ’’سندھ کے لوگ اٹھیں سڑکوں پر آئیں اور فرعون کا بھگانے میں ان کا ساتھ دیں۔ ‘‘
نواز شریف کے خلاف عمران خان کی مہم پاناما مقدمہ کی وجہ سے نقطہ انتہا کو پہنچی۔ اور وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ لیکن ان کی یہ مہم تب کامیابی سے ہمکنار ہوئی جب عدالت بیچ میں آئی۔ ورنہ عوامی احتجاج کے ذریعے وہ نواز شریف کو نہیں ہٹا پائے تھے۔ 
رواں سال اپریل میں عمران خان نے اعلان کیا کہ اب وہ سندھ پر توجہ دیں گے۔انہوں نے اپریل میں لاڑکانہ اور دادو اور بدین کا دورہ کیا۔ لاڑکانہ سے دادو تک ریلی نکالی۔ مختلف مقامات پر جلسوں سے خطاب کیا۔ دادو میں لیاقت جتوئی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔

پیپلزپارٹی نے اس خطرے کو بھانپ لیا۔ اور دفاعی حکمت عملی بنانے کی کوشش کی۔زرداری نے اعلان کیا کہ عمران خان نوجوانوں کے لیڈر نہیں ہو سکتے۔

زرداری کے اس اعلان کے بعد صوبے کے مختلف شہوں میں بلاول بھٹو زرداری اور اس کے ساتھ صوبائی یا مقمای قیادت کے پنافلیکس لگائے گئے۔

سندھ اسمبلی نے ماہ مئی میں عمران خان کے خلاف قرارداد منظور کی یہ قرارداد اگرچہ نواز لیگ کی سورٹھ تھیبو نے پیش کی تھی۔ لیکن اس کی حمایت ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے بھی کی۔ اس قرارداد کے ذریعے پیپلزپارٹی فی الحال یہ بتانے میں کامیاب ہوگئی کہ سندھ کی مین اسٹریم سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ 
عمران خان کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ جلسوں اورجلوسوں کے ذریعے سندھ کے نوجوانوں کو سڑکوں پر لے آئے اور دیہی علاقوں میں پیپلزپارٹی سے ناراض یا اسکے مخالفین الیکٹ ایبل کو کٹھا کرے۔یہ تمام کام وہ اپنے بل بوتے پر کرنا چاہتا ہے۔ فی الحال وہ سندھ کے سیاسی جماعتوں یا قوم پرستوں سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ عمران خان سندھ کا دورہ کرتے ہیں تو سرگرمی ہوتی ہے۔ وہ چلے جاتے ہیں تو ان کی پارٹی کی جانب سے یہاں کوئی سرگرمی نہیں ہوتی۔ لیاقت جتوئی کی پارٹی میں شمولیت سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ تحریک انصاف نے ایک بڑا معرکہ مار لیا ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کے قلعہ سمجھ اجانے والے اس صوبے میں وہی خاموشی رہی۔ 
نواز شریف کی حکمت عملی سے مختلف تھی۔ ان کی توجہ پہلے سے موجود گروپوں اور سیاسی جماعتوں سے اتحاد کر کرنا اور ایلیکٹ ایبل کو ملانارہا۔ لیکن یہ کام وہ انتخابات کے موقعہ پر کرتے تھے۔ نواز شریف نے کبھی بھی براہ راست سندھ کے عام لوگوں کو اپیل نہیں کی۔ 
غیر پیپلزپارٹی ووٹرز ایک جگہ پر ڈالے جاسکتے ہیں؟ 
قوم پرست کس کا ساتھ دیں گے؟ نواز شریف یا عمران خان کا؟
سندھ کا متوسط طبقہ کیا رول ادا کرتا ہے؟ صوبے میں مجموعی طور پر شہری آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ جب ہم شہری آادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے چھوٹے چھوٹے شہر بڑے ہوئے ہیں۔ دیہی علاقوں سے لوگ بڑے شہروں اور ماضی کے ان چھوٹے شہروں میں منتقل ہوئے ہیں۔ 
تعلیم یافتہ طبقے سے تبدیلی کیتوقع کی جاسکتی ہے؟ مڈل کلاس یا شہری طبقہ اپنے جوہر میں یا سائنسی سوچ کا مالک ہے؟ پڑھا لکھا غیر سیاسی طبقہ نے وڈیروں کا ساتھ دیا ۔ اپنی ذاتی ترقی یا اختیارا کا ذریعہ بنایا ہے۔ متوسط طبقہ اشرافیہ کا اتحادی اور ساتھی ہے۔ اور کرپشن میں اپنا ھصہ لے رہا ہے۔ 

Sep 14, 2017

Labels: Imran Khan-Sindh

posted by Sangi | 9:47 PM | 0 Comments

پیپلزپارٹی مائنس آصف زرداری ؟

 سابق صدر آصف علی زرداری کی سیاسی تنہائی اور مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔کہاں وزیراعظم لانے کے دعوا کر رہے تھے لیکن ملک میں انتخابی ماحول بنتے ہی غیر فعال ہوگئے۔آصف زرداری کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔ اور پاناما کی طرز پر جے آئی ٹی بنائی جارہی ہے۔سپریم کورٹ نے سابق صدرآصف زرداری،ان کی بہن فریال تالپورکو بارہ جولائی کو عدالت میں طلب کر لیا ہے۔ آج کے سیاسی منظر نماے میں پیپلزپارٹی تنہا کھڑی ہے۔ ملکی سطح پر تین بڑے دھارے نواز لیگ، عمران خان اور ،مذہبی جماعتوں کے ہیں وہ کسی بھی دھارے کا حصہ نہیں۔ کبھی آصف علی زرداری نے علامہ قادری کے زریعے عمران خان سے جڑنے کی کوشش کی تھی لیکن کپتان خان نے اسٹیج شیئر کرنے سے انکار کردیا تھا۔ حالیہ پیش رفت کے بعد یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو سیاست سے مائنس کرنے کی کوششوں میں تیزی آگئی۔نتخابات کے شیڈول جاری ہونے سے قبل پنجاب اور خیبرپختونخوا کے طوفانی دورے کرکے جوڑ توڑ کررہے تھے۔ اپنی پارٹی کا وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ لانے کی باتیں کرنے والے آصف زرداری ملک میں انتخابی ماحول بنتے ہی غیر فعال ہوگئے ہیں۔ میدان میں بلاول بھٹو زرداری اکیلے نظر آرہے ہیں۔ 

ذرائع کے مطابق ملکی سیاسی منظر نامے اور انتخابی میدان میں اہم ترین تبدیلیوں اور بڑے فیصلوں کا وقت ہے۔ پاکستانی سیاست سے ایک اور مائنس ون کی کوششوں کو تقویت دی جارہی ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی مائنس زرداری کی صورت پیپلزپارٹی کے ساتھ سیاسی ہمسفر بننے کا عندیہ دیدیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری کی سیاسی تنہائی اورپیپلزپارٹی کی مشکلات بڑھتی جارہی ہیں۔اب وہ پیپلزپارٹی کی سرگرمیوں،عوامی اجتماعات اور خود اپنے حلقہ انتخاب سے بھی دور ہیں۔آصف علی زرداری خود این ای213 نوابشاہ کی نشست پر امیدوار ہیں اور تاحال اپنے حلقہ انتخاب میں نہیں گئے ہیں۔ انکی ہمشیرہ اور اسی علاقے سے صوبائی نشست پر امیدوار ڈاکٹر عذرا فضل بھی محدود پیمانے پر انتخابی مہم چلارہی ہیں۔آصف علی زرداری نے اپنی سرگرمیوں کو محدود کرلیا ہے اور صرف ٹی وی پروگرامز تک محدود ہیں۔
عام انتخابات میں پیپلزپارٹی کو پنجاب سے کوئی ہیوی ویٹ امیدوار نہیں مل سکے ہیں اور پیپلزپارٹی کا سیاسی کردار محدود ہوتا دکھائی دے رہاہے۔پیپلزپارٹی کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف زرداری حالیہ دنوں میں ذہنی دباو کا شکار ہیں اور سیاسی معاملات نتیجہ خیز انداز میں نہ ہونے کی وجہ سے پریشان ہیں جبکہ انکے دائمی امراض کی تکلیف بھی بڑھ رہی ہے ۔
بینکر حسین لوائی کی گرفتاری ایک اہم پیش رفت مانی جاتی ہے۔ اس کیس کو نتیجہ خیز انجام تک لے جانے کے جتن ہو رہے ہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جعلی بینک اکاؤنٹس ازخود نوٹس کی سماعت کی۔سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکاؤنٹس سے متعلق کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے آصف زرداری اور سندھ میں ’’ آئرن لیڈی ‘‘سمجھی جانے والی ان کی ہمشیرہ فریال تالپور سمیت بیس افراد کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا حکم دے دیا۔ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن عدالت میں پیش ہوئے اور بتایا کہ سات لوگوں کے نام پر قائم انتیس اکاؤنٹس سے 35 ارب سے زائد کی ٹرانزکشن ہوئیں۔سپریم کورٹ نے سابق صدرآصف زرداری،ان کی بہن فریال تالپور،طارق سلطان،ارم عقیل، محمد اشرف،محمد اقبال آرائیں اوردیگر افراد کو طلبی کے نوٹس جاری کردیئے ہیں۔ 
ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن نے عدالت کو بتایا کہ طارق سلطان کے نام پر 5 اور ارم عقیل کے نام پر دو اکاؤنٹس ہیں۔ محمد اشرف کے نام پر ایک ذاتی اور 4 لاجسٹک ٹریڈ کے اکاؤنٹس ہیں، محمد عمیر بیرون ملک ہیں اور ان کا ایک ذاتی اور 6 اکاؤنٹس حمیرا اسپورٹس کے نام پر ہیں، عدنان جاوید کے 3 اکاؤنٹس لکی انٹرنیشنل کے نام پر ہیں، قاسم علی کے تین اکاؤنٹس رائل انٹرنیشنل کے نام سے ہیں۔ عدالت نے اسٹیٹ بنک کو نجی بینک کی جمع کرائی گئی سات ارب روپے کی ایکوٹی روکنے کا حکم دے دیا۔
اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کے کیس میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے چیئرمین حسین لوائی اور نجی بینک کے نائب صدر طلحہ رضا جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کی تحویل میں ہیں۔ ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ ملزمان نے 7 ارب کی منی لانڈرنگ کی،4 ارب ریکور کر لئے ہیں۔ایف آئی اے کے مطابق سمٹ اور سندھ بینک سمیت تین بینکوں میں 29 جعلی اکاؤنٹس کھولے گئے، یہ اکاؤنٹس انور مجید کے اومنی گروپ کے ملازمین استعمال کرتے تھے۔ صرف سمٹ بینک کے 16 اکاؤنٹس کے ذریعے 20? ارب کا لین دین ہوا۔
اکاؤنٹس میں جمع کرائے گئے پیسوں کے بارے میں ایف آئی اے ذرائع نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان اکاؤنٹس کو پروجیکٹس سے ملنے والے کک بیکس لینے کیلئے استعمال کیا گیا۔ 
یہ تمام ملبہ زرداری پر گرنے والا ہے۔ لگتا ہے کہ سابق صدر آصف زراری اور ان کی ہمشیرہ کے گرد بھی گھیرا تنگ ہونے جارہا ہے۔
آصف زرداری نے معاملے کو بھانپ لیا تھا۔وہ اکتوبر سے نواز لیگ کے خلاف اسٹبلشمنٹ کا ساتھ دیتے رہے۔ عمران خان اورعلامہ ہ قادری سے بنانے کی کوشش کی۔ بلوچستان میں زہری کو حکومت توڑنے، عبدالقدوس بزنجو کی حکومت لانے اور سینیٹ اور اس کے چیئرمین کے انتخابات میں اسٹبلشمنٹ کے ساتھ کھڑے رہے۔انہیں بانور کرایا گیا کہ عمران خان بطور وزیراعظم اسٹبلشمنٹ کے پسندیدہ نہیں۔ لہٰذا ایک بار پھرپیپلزپارٹی کو اقتدار میں آنے کا موقعہ دیا جائے گا۔ اس فارمولا کے حامیوں نے آصف زرداری کو ایوان صدر پہنچانے کا آئیڈیا مارکیٹ میں بیچنا شروع کردیا۔ بعد میں معاملات بگڑنے لگے تو آصف زرداری آئندہ حکومت اور سیٹ اپ میں اپنے سرکردہ رول سے دستبردار ہو گئے۔ اور کہا کہ پیپلزپارٹی اپوزیشن میں بھی بیٹھنے کے لئے تیار ہے۔یعنی پی پی پی کو آئندہ سیٹ اپ میں گیم سے آؤٹ نہ کیا جائے۔ 
یہ خیال مسلسل پختہ کیا گیا کہ نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں میں مبینہ طور پر بڑی کرپشن ہوئی ہے اور یہ حکومتیں عوام کو ڈلیور نہیں کر سکی ۔ لہٰذا اب ان سے نجات کے لیے عمران خان کو اقتدار میں لانا ضروری ہے۔ ایک طریقہ یہ تھا کہ براہ راست مارشل لاء لگادیا جاتا۔ لیکن ایسے حالات نہیں۔ ادوسرا یہ تھا کہ ’’آئین میں رھتے ہوئے ‘‘ اقدامات کئے جائیں۔ لہٰذا عمران خان کو اقتدار میں لانے کے لیے جو بھی حربے استعمال کیے جا رہے ہیں۔یعنی عوام پر انحصار کے بجائے حربوں اور چند شخصیات پر انحصار کیا جارہا ہے۔کچھ لوگ اپنے تئیں طے کر لیتی ہیں کہ ملک کے مفاد میں کیا ہے؟ کیا نہیں؟ اور پھر اس پانے طے کردہ ملکی مفاد کے مطابق پورے نظام کو الٹ پلٹ دیتے ہیں۔ 
اس فارمولے کا ایک حصہ مشرف فارمولے کی نقل ہے، جس میں پیپلزپارٹی اور نواز لیگ دونوں آؤٹ تھیں۔ فرق یہ ہے کہ تب آئین معطل کردیا گیا تھا۔ براہ راست فوج حکومت میں آگئی تھی۔ مشرف نے بھی ان روایتی سیاست دانوں سے نجات حاصل کر نے کی ٹھانی تھی۔اس طرح کے براہ راست تجربے ایوب خان، ضیاء الحق اور مشرف کر چکے ہیں۔جبکہ چھوٹے موٹے تجربے بعض مواقع پر کئے جاچکے ہیں۔ لیکن کبھی بھی ان کا اچھا نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ 
نواز شریف نے’’ خلائی مخلوق‘‘ پر سیاسی انجنیئرنگ کا الزام لگایا تھا کہ ان کے ساتھیوں پر پارٹی چھوڑنے اور پی ٹی آئی میں شمولیت کے لیے دباؤ ڈالا جارہا ہے ۔ انہوں نے کہا تھاکہ یہ کیسی جمہوریت ہوگی، جب لوگ آزادانہ طور پر فیصلے نہ کر سکیں۔ اب یہی بات پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک مخصوص جماعت کو کامیاب کرانے کے لئے لوگوں پر پیپلز پارٹی کو چھوڑنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ بلاول بھٹو بھی اب کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام پر اعتماد کیاجائے اور انہیں فیصلہ کرنے دیا جائے۔ دونوں جماعتوں کو ایک جیسی صورت حال کا سامنا ہے۔ یعنی دونوں جماعتوں کو آئندہ سیٹ اپ میں آؤٹ کیا جارہا ہے۔تعجب ہے کہ یہ سب کچھ سمجھتے ہوئے بھی دونوں جماعتوں کی قیادت مشترکہ حکمت عملی اختیار کرنے کے لیے تیار نہیں ہے ۔
پیپلزپارٹی کے ایک اور ذریعہ کا کہنا ہے کہ مائنس ون کا مطالبہ زور پکڑتا جارہاہے اور امکان ہے کہ پیپلزپارٹی کو مائنس ون کا دکھ جھیلنا پڑے۔ ملک میں ایک نئے منظر نامے رونما ہونے کے اشارے مل رہے ہیں۔ جس کو جماعت اسلامی کے مولانا سراج الحق نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’’ نواز لیگ، پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم تینوں ناکام ہو چکی ہیں‘‘، ایم کیو ایم مائنس ون ہونے کے بعد گوپوں میں تقسیم ہو چکی، عدلیہ کے دو فیصلوں کے بعد نواز لیگ بھی مائنس ون ہو گئی۔ پیپلزپارٹی باقی تھی، اب اس کے خلاف بھی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔
خیال ہے کہ پیپلزپارٹی سے آصف زرداری اور فریال تالپور کو مائنس کیا جارہا ہے۔اگر ایسا ہے تو پیپلزپارٹی کی عوام میں قبولیت بڑھ سکتی ہے۔ ایک مرتبہ اس قبولیت کا الیکشن میں فائدہ مل گیا، تو پھر پارٹی کی قیادت واپس بڑوں کے پاس چلی جائے گی۔ لیکن اسٹبلشمنٹ پیپلزپارٹی کو ایسا کوئی فائدہ دینا نہیں چاہے گی۔ 
حیران کن بات یہ ہے کہ پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری بھی سندھ میں اپنے امیدواروں کو دھمکیاں ملنے کا شکوہ کرچکے ہیں اورآصف زرداری بھی اپنے روایتی انداز سیاست میں کھل کر کھیلنے کی پوزیشن میں نہیں۔ ادھر تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے بھی اپنے دورہ کراچی میں اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ مائنس زرداری کی صورت پیپلزپارٹی کے ساتھ دوستی کا ہاتھ بڑھایا جاسکتا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آصف علی زرداری اور پیپلزپارٹی کے سیاسی مستقبل کے حوالے سے اہم فیصلوں کی منصوبہ بندی ہورہی ہے پیپلزپارٹی کے چند سینئر رہنماؤں کے بقول خطرے کی گھنٹی کی اواز سنائی دے رہی ہے۔ 
2018

Labels: Minus, PPP, zardari

posted by Sangi | 9:41 PM | 0 Comments

شهباز شريف جي ڪراچي آمد شهر جي سياست کي تبديل ڪري سگهندي؟ ‎

 سھیل سانگي 


سنڌ جي صوبائي گاديءَ واري شهر ڪراچيءَ ۾ ايم ڪيو ايم جي مختلف گروپن ۾ جهيڙو بدستو جاري آهي، اڃان تائين هڪ هڪاڻي نه ٿي سگهي آهي. ٻئي طرف گذريل چند هفتن کان ملڪ گير پارٽين ڪراچي کي فوڪس ڪرڻ شروع ڪيو آهي. گذريل سالن دوران جماعتِ اسلامي ۽ تحريڪ انصاف هتي پير کوڙڻ جون ڪوششون ڪنديون رهيون، پر ايم ڪيو ايم جي ڏاڍ ۽ هڪ هٽيءَ واري رويي سبب ڪو ٻوٽو ٻاري نه سگهيون. ڪراچي 1980ع واري اڌ ڏهاڪي کان وٺي لسانيت، تعصب ۽ مارا ماريءَ جي ور چڙهيل رهيو. هالانڪه ملڪ جي وڏي صنعتي ۽ ڪاروباري توڙي وڏي بندرگاهه هجڻ جي ناتي شهر جي اهڙي تعصب واري سڃاڻپ نه هجڻ گهرجي.

ڏٺو وڃي ته پنجاهه ۽ سٺ واري ڏهاڪي دوران هيءُ شهر سياسي فڪر توڙي عمل جي حوالي سان ترقي پسند، روشن خيالي ۽ جمهوريت پسندن سان گڏ بيٺل هو. مزدور ۽ شاگرد تحريڪون، ترقي پسندانه ادبي ۽ سياسي سرگرميون شهر جي سڃاڻپ هيون. اهو فڪر عام راءِ يا سوچ طور ئي مقبول نه هو، بلڪه اقتدار جي ايوانن تي به اثرانداز ٿيندو هو. شهر 1970ع جي چونڊن ۾ ڀرپور مذهبي رنگ جو اظهار ڪيو ۽ هتان مولانا شاهه احمد نوراني جي جميعتِ علماءِ پاڪستان ۽ جماعتِ اسلامي سوڀاريون ٿيون. پيپلز پارٽيءَ کي به ڪجهه حصو مليو، پر مجموعي طور تي ڇاپ ديوبندي ۽ بريلوي مڪتبهءِ فڪر رکندڙ ٻن مذهبي جماعتن جي رهي، جن جو ووٽر انڊيا مان لڏي آيل هو. انهن ٻنهي جماعتن پاڻ ۾ ڪو اتحاد نه ڪيو هو، بلڪه هڪ ٻئي جي آمهون سامهون ئي هيون. 1970ع وارو ڏهاڪو انهيءَ ڇڪتاڻ ۾ گذريو ته شهر ۾ مذهبي سياست حاوي هجي يا ترقي پسند لبرل سوچ؟ ذوالفقار علي ڀٽو جي حڪومت جتي سڄي ملڪ اندر کاٻي ڌر جي سياست کي ڪمزور ڪيو، ان جو گهڻو اثر ڪراچيءَ تي ٿيو، جتي سندس دورِ حڪومت ۾ مزدور تحريڪن کي چيڀاٽيو ويو ۽ ترقي پسندن خلاف ڪارروايون ڪيون ويون، ائين مذهبي سياست ڪندڙ ڌرين کي ڄڻ جڳهه ملي ويئي. ڀُٽي جي خلاف پاڪستان قومي اتحاد (پي اين اي) جي تحريڪ ۾ جميعت علماءِ پاڪستان ۽ جماعتِ اسلامي سرگرمي وارو ڪردار ادا ڪيو. ائين ڪراچي کي پنجاهه ۽ سٺ واري ڏهاڪي کانپوءِ هڪ دفعو وري اهو احساس ڏياريو ويو ته اها ڪو سياسي ڪردار ادا ڪري سگهي ٿي. جماعتِ اسلامي ۽ جميعت علماءِ پاڪستان ڪراچي کي ته اهو احساس ڏياريو پر ان احساس سبب ٿورو اڳتي هلي راند سندن هٿن مان نڪري ويئي. سمورين خصوصيتن جي باوجود ڪراچي ضياءُالحق خلاف ايم آر ڊي تحريڪ ۾ به وڏي پيماني تي پنهنجو ڪردار ادا نه ڪري سگهيو. ضياءَ دور ۾ لساني سياست کي زور وٺرايو ويو. پهرين اها مهاجر سياست طور سامهون آئي. آل پاڪستان مهاجر اسٽوڊنٽس آرگنائزيشن ۽ پوءِ ايم ڪيو ايم جي شڪل ۾ اچي بيٺي. پنجابي لساني سياست ”پنجابي- پختون اتحاد“ جي نالي سان ملڪ اعواڻ ڪرڻ جي ڪوشش هئي، پر پنجابي لسانيت جو ڪراچيءَ ۾ کليل اظهار 1988ع جي چونڊن کانپوءِ بنهه هلڪو ٿي ويو. ان بعد پختون عنصر آيو. پختون لساني سياست جو کليل ۽ اثرائتو اظهار مشرف دور ۾ ٿيو. ان سڄي عرصي دوران مختلف موقعن تي انهن لساني گروهن جي وچ ۾ هٿياربند ٽڪراءُ به ٿيندو رهيو. شهر جي بلوچ آبادي سندس اندروني ٽڪرائن ۾ ڦاٿل رهي. مختلف لساني گروهن جي ٽڪرائن سبب سوين انساني جانيون ضايع ٿيون. لساني سياست مروج ٿيڻ کان پوءِ هن ميٽروپوليٽن شهر ۾ مذهبي توڙي ترقي پسند فڪر ۽ سوچ ڪمزور پئجي وئي.

ضياءُالحق لسانيت کي هوا ڏيڻ سان گڏ هڪ ٻيو ڪم اهو ڪيو، جو هن روايتي مذهبي جماعتن جي جاءِ تي مختلف مڪتبهءِ فڪر مان نوان مذهبي گروپ پيدا ڪيا، انهن جي حوصله افزائي ڪئي ته جيئن ملڪ جو وڏو صنعتي شهر ورهايل هجي ۽ ڪنهن جمهوري ۽ حقن واري تحريڪ ۾ رول ادا نه ڪري سگهي. ساڳي وقت اهو ته مذهبي بيانئي کان ٻاهر نه نڪري سگهي.

مشرف دور ۾ جهادي عنصر ظاهر ٿيو. هڪ مذهبي سوچ رکندڙ ٻي مذهبي سوچ رکندڙ جي خلاف ٿي بيٺا. فرقيوار جهيڙو پڻ ڀڙڪي اٿيو. ان سموري ورڇ ۽ انجنيئرنگ جو فائدو ايم ڪيو ايم کي مليو، جنهن شهر تي پنهنجي گرفت مضبوط ڪئي ۽ ورڇ ۽ تشدد کي وڌايو.

2015ع ۾ ايم ڪيو ايم خلاف آپريشن ۽ ان بعد ان جي اندر گروهه بندين هڪ نئين صورتحال پيدا ڪري وڌي. ڪجهه اسپيس پيدا ٿيو، ڪجهه آزاديءَ سان ڪم ڪرڻ جو موقعو مليو. هاڻي هر فڪر ۽ سياست ڪندڙ ماڻهو پنهنجي جڳهه ٺاهڻ گهرن ٿا. اها صورتحال هڪ نئين صف بندي جي گهرجائو آهي. مذهبي جماعتون متحده مجلس عمل جي شڪل ۾ ٻيهر ميدان ۾ لٿيون آهن. اهي ڄاڻن ٿيون ته اڪيلي سر اُهي نئين صف بندي ۾ مقابلو نٿيون ڪري سگهن. متوازي ۽ متضاد فڪر رکندڙ مذهبي جماعتون گڏجي ويون آهن. اهو اتحاد پنهنجي نوعيت ۾ جيتوڻيڪ نئون ڪونهي. هن کان اڳ 1977ع ۾ ذوالفقار علي ڀٽي خلاف به اهي جماعتون هڪ ٻئي سان اتحاد ۾ هيون. ڪنهن خلاف اتحادي ٿيڻ الڳ ڳالهه آهي، گڏجي اليڪشن وڙهڻ بنهه مختلف آهي. ان جي تسلسل طور ڄڻ مشرف دور ۾ انهن جماعتن گڏجي چونڊ وڙهي هئي. ڪراچيءَ ۾ مذهبي فڪر جي حوالي سان پنجاب ۾ قائم ٿيل ”لبيڪ يا رسول الله“ جماعت گذريل ڪجهه مهينن کان سرگرم ٿي آهي. ماضي ۾ بريلوي مڪتبهءِ فڪر جو وڏو مرڪز ڪراچي رهيو آهي ۽ مولانا نوراني ان جي قيادت ڪندو هو. هن فڪر ۽ تنظيم احمدين خلاف مهم توڙي پي اين اي جي 9 ستارن واري تحريڪ ۾ ڀرپور ڪردار ادا ڪيو هو. مولانا نوراني جي وفات کانپوءِ بريلوي مڪتبهءِ فڪر جو مرڪز ڄڻ ڪراچي کان پنجاب منتقل ٿي ويو. نئين ٺهيل جماعت ان جو اظهار آهي، جيڪا هاڻي ڪراچيءَ ۾ لٿل آهي.

ايم ڪيو ايم اندر پهريون ڏار ”حقيقي“ جي نالي سان پيو هو ۽ ٻيو ڏار ان گروپ سان پيو، جنهن پنهنجي سڃاڻپ سني تحريڪ طور ڪرائي، جيڪي بنيادي بريلوي مڪتبهءِ فڪر جا پوئلڳ هئا، پر سني تحريڪ ڪا جڳهه نه ٺاهي سگهي. ڪراچي ۾ ان متڪبهءِ فڪر جي حوالي سان خال موجود هو، جنهن کي پنجاب مان آيل جماعت ڀرڻ جي ڪوشش ڪري رهي آهي. هن جماعت ماڻهن ۾ پنهنجو وجود ڏيکارڻ لاءِ خيراتي ۽ عام ڀلي وارا ڪم شروع ڪيا آهن. ڪراچيءَ ۾ واپاري برادري ۾ سوچ جون پاڙون رکڻ ڪري بريلوي مڪتبهءِ فڪر وٽ مالي وسيلا به آهن ۽ ووٽ به. هو ماضيءَ ۾ ان جو مظاهرو ڪري چڪا آهن. اها جماعت آهي ته مذهبي جماعتن جي اتحاد مجلس عمل وانگر نواز ليگ مخالف پر ان اتحاد جو حصو بڻجڻ لاءِ تيار ناهي. بلڪه اها ايم ايم اي جي خلاف بيهندي نظر اچي ٿي.

سمورين ڳالهين جي باوجود وري به ڏهاڪن کان ڪراچي ۾ گهڙيل لساني سياسي گروه بندي اڄ به موجود آهي، ان کان ٻاهر نه اچي سگهي. اڪثر سنڌي ۽ بلوچ آبادي پيپلز پارٽي کي ووٽ ڏيڻ تي مجبور آهي. پنجابي آبادي نواز ليگ ڏي منهن ڪيو بيٺي آهي. پشتو ڳالهائيندڙن جا ووٽ عوامي نيشنل پارٽي، تحريڪ انصاف ۽ مولانا فضل الرحمان ڏي ويندا. اردو آبادي جو ووٽ ورهائبو، پر اها ورهاست پاڻ ۾ ئي ٿيندي، ٻي ڪنهن پارٽي کي ڪو ٿورو ئي حصو ملندو. بلدياتي چونڊن ۾ پنجابي ۽ هزاره بيلٽ سان واسطو رکندڙ آبادي نواز ليگ کي ووٽ ڏنا هئا. شهباز شريف جو ڪراچي اچڻ ان لاءِ آهي ته هو نواز ليگ لاءِ هن شهر مان حصو ڪڍي سگهي. هن باقي سنڌ جو دورو ڪرڻ بدران رڳو گادي واري شهر تائين اچڻ پسند ڪيو. هن ايم ڪيو ايم جي بهادرآباد واري گروپ سان ملاقات ڪئي ۽ عوامي نيشنل پارٽي جي شاهي سيد سان مليو. سندس هي جملا اهم آهن ته اسان کي ڪراچي ۾ پنهنجي طاقت جو اندازو آهي. اسين سڀني سان گڏجي هلڻ گهرون ٿا. ايم ڪيو ايم جيتوڻيڪ گروپن ۾ ورهايل آهي پر ماضي ۾ ان ڪنهن سان چونڊن ۾ اتحاد نه ڪيو آهي ۽ هاڻي به نه ڪندي. ان صورتحال ۾ شهباز شريف پاران ايم ڪيو ايم جي گروپ سان ملاقات چونڊن لاءِ اتحاد نه، پر اهو ٻڌائڻ آهي ته نواز ليگ اي اين پي يا ٻي ڪنهن ڌر سان ٺاهه ڪري ٿي ته اهو ايم ڪيو ايم خلاف ناهي. هو دراصل پنجابي آبادي ۽ پختونن جا ووٽ هڪ هنڌ گڏ ڪرڻ ۽ ڪجهه ٻين حلقن ۾ نواز ليگ جي حامين کي گڏ ڪرڻ گهري ٿو. هو اهو به چاهي ٿو ته ڪراچي ۾ ماحول نواز ليگ مخالف نه، پر پيپلز پارٽي مخالف ٺهي. سنڌ ۾ جڏهن پيپلز پارٽي ۽ تحريڪِ انصاف جون سرگرميون نظر اچن ٿيون ۽ نواز ليگ گم هئي، ان کوٽ جي پورائي لاءِ شهباز شريف پهتو آهي. وڏي ڳالهه اها آهي ته شهباز شريف جو سنڌ ۾ تعارف نواز ليگ جي صدر طور نه، پر پنجاب جي وڏي وزير طور آهي، جيڪو سنڌ سان جهيڙيندو رهيو آهي. عجيب ڳالهه ته نواز ليگ پنجاب ۾ سڄي سرگرمي نواز شريف ۽ مريم جي ذريعي ڪري ٿي، پر سنڌ ۾ اهو ڪم شهباز شريف کي ڏنو ويو آهي. حالانڪه سنڌ ۾ نواز شريف لاءِ شهباز جي مقابلي ۾ بهتر سوچ آهي. سوال آهي ته هن ڏکي صورتحال ۾ نواز ليگ ڪراچي ۾ پنهنجي لاءِ ڪيتري جڳهه ٺاهي سگهي ٿي ۽ ماحول کي نواز ليگ مخالفت مان ڪڍي پيپلز پارٽي مخالف ٺاهي سگهي ٿي؟ 

April 26 2018

Shehbaz Sharif Karachi visit

Elections 2018, MQM, 

,
ReplyForward

posted by Sangi | 9:39 PM | 0 Comments

Rafiq Khoso ka daur رفیق کھوسو کا دور

 رفیق کھوسو کا دور

۔۔۔۔ 

رفیق کھوسو نے بدلتی دنیا دیکھی۔ اور یہ تبدیلی کس طرح عوام دوست اور  مجموعی طور پر انسانیت کے فائدے میں ہو سکتی ہے؟ اس  میں اپنا حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔

سندھ میں طلباء تحریک میں  اسلح گردی متعارف ہوئی۔  وزیر زیدی کا اغوا، کنووکیشن کا واقعہ، طلباء کے گرہوں میں مسلح تصادم 

ڈی پی آر کے تحت  طلباء، شاعروں ادیبوں  اور سیاسی کارکنوں کی گرفتاریاں 

قوم پرستی بھی نئی شکل لے رہی تھی۔ جیئے سندھ محاذ بنا۔ قوم پرست اور کمیونسٹ الگ ہوئے۔ قوم پرست کمیونسٹوں کو  اتحادی بننے کے بجائے حریف سمجھنے لگے تھے۔ حالانکہ لیفٹ کے لوگ قوم پرستی کی ہی سیاست کر رہے تھے۔ 

مغربی پاکستان میں بھٹو کی پیپلزپارٹی اور دیگر لیفٹ کی جماعتوں نے انتخاب جیتا۔ 

بھٹو شیخ مجیب سے اقتدار میں شراکت کا مطالبہ کررہا تھا۔  

 نیپ اور جے یو آئی کا معاہدہ ہوا۔ دو صوبوں میں حکموتیں بنیں۔ 

دوسری طرف دائیں بازو کی جماعتیں سرگرم ہوئیں۔  پاگارا کی قیادت میں اپریل باہتر میں سندھ اسلامی محاذ بنا۔ صوبہ سرحد میں بھٹو نے مسلم لیگ قیوم گروپ سے اتاد کیا۔ 

سندھ میں زبان کے مسئلے پر اختلاف  پیدا ہوئے اور لسانی  فسادات  پھوٹ پڑے۔ جون  انیس سو باہتر میں مزددوروں میں بے چینی ابھرنے لگی۔جولائی باہتر میں زبان کے مسئلے پر ہڑتال  ہوئی۔ کراچی میں پولیس اور مزدوروں میں تصادم متعدد مزدور ہلاک  ہوئے۔ یوں شہری آبادی پیپلزپارٹی سے دور ہوتی چلی گئی۔ پانچ ماہ بعد معراج محمد خان وزارت سے مستعفی ہو گئے۔ یوں  بائیں بازو  کے وہ گرہ جو چین نواز زمرے میں آتے تھے اور جنہوں نے پیپلزپارٹی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی تھی یا اس کی حمایت کر رہے تھے، وہ پیپلزپارٹی سے علحدہ ہوگئے۔ ابھی نیا آئین بننا باقی تھا۔ اس سے قبل ہی صورتحال یہ بنی کہ ستمبر انیس سو باہتر بھٹو کا یہ بیان سامنے آیا کہ ”نیپ ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے۔“  فروری تیہتر بزنجو ارباب خلیل کو گورنری کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا اور بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں نیپ اور جے یوآئی کی صوبائی کی حکومتیں ختم کردی گئیں۔ اب ایسی  صورتحال بن رہی تھی کہ ملک کی جمہوری و قوم پرست قوتوں اور بھٹو کے درمیان فاصلے بڑھ رہے تھے۔نیپ کے سربراہ خان عبدالولی خان کا یہ بیان آیا کہ”بھٹو کے خلاف  میں شیطان سے بھی ہاتھ ملانے کو تیار ہوں۔“لہذا فروری تیہتر میں یو ڈی ایف بنا۔ لیاقت باغ کا سانحہ ہوا جہاں  اپوزیشن  کے جلسے پر فائرنگ کی گئی جس کء نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے۔ 

دس اپریل 1973 کو آئین منظور  ہوا۔ لیکن اس آئین  پر عمل درآمد سے پہلے سیاسی ماحول گرم ہو چکا تھا۔ اور  بھٹو کے خلاف مخالفت کی لکیریں گہری اور واضح ہو رہی تھی۔ بھٹو اور قوم پرست آپس میں نہیں بن رہے تھے۔ اپریل میں  ہی سندھ یونیورسٹی میں کنووکیشن کا واقعہ  ہوا، جس میں سندھ کی قوم پرست تنظیم نے  آئین  کے حولاے سے احتجاج کرتے ہوئے، وفاقی وزیر قانون عبدلاحفیظ پیرزادہ اور گورنر سندھ بیگم رعنا لیاقت علی کیساتھ بدتمیزی کی۔ائندہ چند روز میں  جی ایم سید کو ڈی پی آر کے تحت گرفتارکرلیا گیا۔چودہ اگست  تیہتر کو آئین نافذہوا اور اس کے چند روز بعد اگست میں نیپ کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں۔ معاملہ یہیں پر نہیں  رکا۔ اکتوبر تیہتر چھ حروں کا قتل ہوا جس نے بھٹو کے آبائی صوبے سندھ میں پاگارا اور بھٹو  کے درمیان جھگڑے کو تیز کردیا۔ اسی سال اکتوبر میں سندھ یونیورسٹی میں طلباء کے دوگروہوں میں تصادم  میں دو طلباء ہلاک ہوئے۔اس واقعہ نے سندھ یونیورسٹی اور طلباء سیاست میں تشدد کو متعارف کرایا۔

ملک دائیں بازو کی طرف بڑھنا شروع ہوا۔ پریس پر پابندیاں 

فروری پچہتر میں  نیپ پر پابندی لگا دی گئی۔ اور مرکزی رہنماؤں  ولی خان، غوث بخش بزنجو، سردار عطاء اللہ خان مینگل، نواب خیر بخش مری،  ارباب سکندر سمیت گرفتار کرلیا گیا۔آتھ ماہ بعد سپریم کورٹ نے پابندی کو جائز قرار دیا۔ مارچ میں ولی خان، اجمل خٹک، اور دیگر 43 رہنماؤں کے خلاف مقدمہ  کا اغاز ہوا۔

مئی انیس سو پطہتر کو سندھ میں کتب و رسائل پر پابندی عائد کردی گئی۔

پنجاب مین پیپلزپارٹی کے پرانے لوگ علحدہ ہونے لگے حنیف رامے، کھر، وہ پاگارا سے جا ملے۔ میر رسول بخش تالپور  نے بھی علحدگی اختیار کر لی۔

چھ  نومبر پچہتر کو شیرباز مزاری کی قیادت میں نئی پارٹی کا عمل آیا بیگم نسیم ولی سیکریٹری۔ اس کا مقصد بھٹو دشمنی اور ولی خان اور ساتھیوں کی رہائی تھا۔ اتھہتر کے اوائل میں  افادیت ختم ہو گئی۔  اور غیر فعال ہو گئی۔

 چھ فروری چھہتر اسد مینگل کا قتل۔ ٹکا خان نے بتایا کہ جنرل ضیاء الحق، جنرل ارباب جہانزیب،  اور جنرل اکبر ہیں۔ بعد مین بھٹو نے جب جنرل ضیا کو طلب کر کے پوچھا  کہا کہ فوجی حکام اس واقعہ پر شرمندہ ہیں اور وزیراعظم سے معافی کے خواستگار ہیں۔ بھٹو حکومت کے خاتمے کے بعد ضیاء حکموت نے  اس واقعہ کے لئے ایف ایس ایف کو  ذمہ دار ٹہرایا

اپریل چھاہتر کو ولی خان اور دیگر کے خلاف مقدمے کی سماعت شروع ہوئی۔ ضیاء الحق کے تقرر کے بعد  ایک لہر دوبارہ آئی۔ کھر اور احمد رضا قصوری دوبارہ پیپلزپارٹی مین آگئے۔  

اپریل چھہتر میں خان آف قلات کے ساتھ کھڑے ہو کر بلوچستان میں سرداری نظام کے خاتمے کا  اعلان کیا 

۔۔۔

 انگریز کی تربیت یافتہ سول اور ملٹری بیوروکریسی  اور جاگیردارانہ سوچ ورثے میں ملی۔  لہٰذا پنجاب میں مخصوص طرز سیاست  متعارف ہوا۔اور پنجاب اپنے طبقاتی مفادات کے لئے  طاقت کا حلیف بنے۔ 

پاکستان نے پہلی کروٹ بدلی تو ملک میں جمہوریت کے بجائے مارشل لاء نافذ کردیا گیا اور صوبوں کو اختیارات دینے کے بجائے ون یونٹ کا طوق ان  کے گلے میں ڈال کر حقوق سے محروم کردیاگیا۔ ایوب خان کے دس سالہ مارشل لائی دور میں ملک میں سرکار کی سرپرستی اور مکمل مالی امداد سے سرمایہ داری پروان چڑھی۔ ایوب خان کے زرعی صلاحات اور صنعتکاری کے نتیجے میں نئے طبقات نے جنم لیا۔ نئے طبقات کے جنم لینے سے پرانے طبقات اور تضادات ختم تو نہیں ہوئے۔ تاہم شکلیں کچھ بتدیل ہوئیں اور ساتھ ہی نئے تضادات نے جنم لیا۔ لہٰذا قومی سوال، طبقاتی سوال اور جمہوری سوال گڈمڈ ہوتے رہے۔ کبھی ساتھ تو، کبھی الگ ہوتے رہے۔ مجموعی طور پر سیاستدانوں کو ملکی معاملات سے دور رکھا گیا۔ 

دوسری کروٹ نے ایوب شاہی کو اٹھاکر پھینکنے کے ساتھ ساتھ ون  یونٹ کو بھی توڑ دیا اور ساتھ ساتھ انتخابات اور جمہوریت کا راستہ کھلا۔ اور مزدوروں اور کسانوں کے مسائل سیاست کے اہم بیانیئے کا حصہ بنے۔ سوشلزم کا نعرہ ساٹھ کے عشرے کا مقبول نعرہ تھا۔ اگرچہ جمہوریت، صوبوں کے حقوق  کے مطالبات پہلے نمبر پر تھے۔لیکن ذوالفقار علی بھٹو  کے سوشلزم  کے نعرے کو عوام میں زیادہ پزیرائی ملی۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ صوبوں  کے حقوق کی تحریک چلانے والی جماعتیں عوامی لیگ اور نیشنل عوامی پارٹی بھی بائیں بازو کے نظریات رکھتی تھی۔ بلکہ ان جماعتوں میں کمیونسٹ بھی موجود تھے۔ پاکستان کے حکمران طبقات نے  بہت ساری چیزیں مان لیں جس میں ایوب خان کے بنیادی جمہوریتوں کے بجائے حق بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات منعقد کرانا،  یعنی ”ون مین ون ووٹ“،  ون یونٹ کا خاتمہ،  قابل ذکر ہیں، لیکن وہ اپنے ہاتھوں سے اقتدار اور فیصلے سازی جانے نہیں دے رہا تھا۔  لہذا ایوب خان کے  جانشین یحییٰ خان نے لیگل فریم ورک آرڈر جاری کیا، جس میں آئندہ منتخب ہونے والی پارلیمنٹ کو پابند کیا کہ وہ حکمران ٹولہ کی شرائط مانے۔

 انخابات کے نتائج حکمران ٹولے کے پیشگوئیوں اور توقعات کے برعکس آئے۔ 


 ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سے سول بیوروکریسی اور فوج دونوں کی ساکھ مجروح ہوئی۔جنرل یحییٰ خان  کے پاس نمائندہ نظر آنے والے ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں پاکستان پیپلز پارٹی  کے حوالے کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ بھٹو کی انتخابی طاقت، صرف پنجاب اور سندھی تک ہی محدود تھی۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں پیپلز پارٹی کو حمایت حاصل نہیں تھی،  مطلب بھٹو سول بیوروکریسی اور فوجی ہائی کمان کی حمایت کے بغیر مرکزی اپریٹس کا کام نہیں کرسکتا ہے۔بنگلادیش بننے یا مشرقی پاکستان کے علحدہ ہونے کے بعد اب باقی ماندہ پاکستان میں پنجاب کو اکثریت حاصل تھی۔ لہٰذا اب جمہوریت قائم کی جاسکتی تھی۔ یہی بات 73 ع کے آئین کی بنیاد بنی جس کو سیاسی اصطلاح میں متفقہ آئین بھی کہا جاتا ہے۔آئین جس شکل میں منظور ہوا، وہ ماضی کی تاریخ کو دیکھتے ہوئے غنیمت تھا۔کسی حد تک  چھوٹے صوبوں کو”مراعات“ دی گئیں۔اس آئین نے  بطور مجموعی وفاقی پارلیمانی  جمہوریت یں کی علامت پر مبنی سیاسی نظام کے لئے ایک نقشہ فراہم کیا۔ لیکن بھٹو آئین کی وفاقی دفعات پر عمل درآمد کرنے میں ناکام رہے۔پیپلزپارٹی کے ساتھ عوام تو تھے لیکن وہ واقعتا جمہوری اور فعال پارٹی نہ بن سکی جو ملک کو درپیش چیلینجوں کو مقابلہ کرسکے۔لہٰذا بھٹو نے ریاست کے سخت بازوؤں پر بھروسہ کیا۔ سیاسی مخالفت کو ختم کرنے کے اقدامات کئے۔سیاسی طور پر لگ بھگ انہوں نے ایوب خان جیسی ہی پالیسی اختیار کی۔بھٹو کی مقبول بیان بازی اور ان کی کسی حد تک اقتصادی معاشی اصلاحات کی معمولی کامیابیوں کے مابین فرق نے بھٹو کی حمایت کو ایک  سیاسی بنیاد مستحکم کرنے سے روک دیا۔صورتحال جا کر یہ ٹہری کہ  1971 میں کے بنگال کے واقعات کے بعدسول اور مسلح بیوروکریسی اور فوج کی ساکھ متاثر ہوئی تھی۔وہ واپس ریاستی ڈھانچے کے سب سے اہم ستون بن رہے تھے۔بھٹو کا ملک کی سیاسی جماعتوں سے فاصلہ بڑھنے لگا تھا۔ یہ فاصلہ خود پیپلزپارٹی کے اندر بھی بڑھ رہا تھا، جہاں سے سوشلسٹ نظریات کے حامی رہنما اور کارکنان  یا خارج کئے جارہے تھے یا وہ خود کو دور کرتے جارہے تھے۔ 

 جسٹس حمود الرحمن کی سربراہی میں، بنگال  کے واقعات جنگ کی وجوہات جاننے کے لئے،  عدالتی کمیشن تشکیل دیا۔

جولائی 1972 میں، بھٹو نے ہندوستانی وزیر اعظم اندرا گاندھی سے شملہ معاہدہ کیا اور پاکستان کی مسلح افواج کے ترانوے ہزاراہلکاروں کو واپس لایا، مغربی پاکستان کاپانچ  ہزار میل مربع رقبہ کو ہندوستان  سے واپس لیا جس پر ہندوستان نے جنگ کے دوران قبضہ کرلیا تھا۔

جنوری 1972 کو، بھٹو نے آئرن اور اسٹیل، ہیوی انجینئرنگ، ہیوی الیکٹریکل انجینئرنگ، پیٹرو کیمیکلز، سیمنٹ اور عوامی سہولیات سمیت تمام بڑی صنعتوں کو قومیانے کا اعلان کیا۔ مزدوروں کے زیادہ حقوق اور ٹریڈ یونینوں کی طاقت کے ساتھ ایک نئی لیبر پالیسی کا اعلان کیا گیا۔

بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے لئے بھٹو کا دور بدترین رہا۔

1974 میں، پاکستان کی پارلیمنٹ نے 1973 کے آئین کی منظوری دی۔ 1958 کے بعد پہلی بار، ملک کو بطور وزیر اعظم بھٹو کے ساتھ پارلیمانی جمہوریت میں واپس منتقل کیا گیا۔

بلوچستان میں بدامنی

بنگلہ دیش کے علحدگی کے بعد 1970 کی دہائی  میں بلوچستان  کا معاملہ  حرارت پکڑنے لگا۔ پاکستان آرمڈ فورسز صوبہ بلوچستان میں فوجی دستے قائم کرنا چاہتی تھی،  بلوچ اور پشتون قوم پرستوں نے بھی اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے 1973 کے پاکستان آئین کی متفقہ منظوری کے بدلے اپنے ''صوبائی حقوق'' کا مطالبہ کیا تھا۔ صوبہ سرحد اور بلوچستان نے نیپ-جے یو آئی اتحاد میں شامل ہونے پر، انہوں نے کوئٹہ میں وزیر اعلی عطاء اللہ مینگل اور پشاور میں مفتی محمود کی سربراہی میں صوبائی حکومتوں کے ساتھ بات چیت سے انکار کردیا۔ کشیدگی پھیل گئی اور مسلح مزاحمت شروع ہوگئی۔

سیاسی عدم استحکام کا مقابلہ کرتے ہوئے، بھٹو کی مرکزی حکومت نے چھ مہینوں کے اندر دو صوبائی حکومتوں کو برخاست کردیا، دو وزرائے اعلی، دو گورنرز اور اڑتالیس ایم این اے اور ایم پی اے کو گرفتار کرلیا، سپریم کورٹ سے نیپ پر پابندی عائد کرنے کا حکم ملا اور ان سب پر اعلی غداری کا الزام لگایا، خصوصی طور پر تشکیل شدہ حیدرآباد ٹریبونل کے ذریعہ مقدمہ شروع کیا گیا۔

بھٹو ایک متنازعہ شخصیت بنے ہوئے ہیں، ان کو ان کی قوم پرستی اور سیکولر انٹرنیشنلسٹ ایجنڈے کے لئے سراہا جاتا ہے، پھر بھی ان کو اپنے سیاسی مخالفین کو ڈرانے اور انسانی حقوق کی پامالیوں پر تنقید کی جاتی ہے۔

بھٹو کو بتایا گیا کہ داخلی محاذ پر، بلوچ، سندھی، پنجابی، اور پشتون قوم پرستی عروج پرہے۔ پاکستان کو متحد رکھنا مشکل سمجھتے ہوئے، بھٹو نے کسی بھی علیحدگی پسند تحریکوں پر مہر لگانے کے لئے پوری ذہانت اور انٹلیجنس اور فوجی آپریشن شروع کیے۔ 

 سن 1973  اور ستمبر 1974 میں بڑی محاذ آرائی  رہی۔ دریں اثناء  عراقی سفارت خانے میں گولہ بارود کی برآمدی کا واقعہ ہوا۔ 

ایران  نے بلوچ مزاحمت کے پھیلاؤ کے خوف سے پاکستان فوج کی مدد کی۔ 

آئین میں دوسری ترمیم نے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے غیر مسلم کی اصطلاح کی تعریف کی۔ تیسری ترمیم کے تحت نظربند افراد کے حقوق محدود تھے جبکہ چوتھی ترمیم کے تحت سیاسی مخالفین کو ریلیف دینے کے لئے عدالتوں کے اختیارات اور دائرہ اختیار کو کم کیا گیا تھا۔ پانچویں ترمیم 15 ستمبر 1976 کو منظور ہوئی، جس میں عدلیہ کے اقتدار اور دائرہ اختیار کو کم کرنے پر توجہ دی گئی۔ چھٹی ترمیم کی بنیادی شق نے سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے چیف جسٹسوں کی میعاد کو ریٹائرمنٹ کی عمر  بڑھا دی گئی۔بھٹو حکومت نے صنعتی شعبے میں متعدد اصلاحات کیں۔ اس کی اصلاحات دوگنا تھیں: قومی تحویل میں لینا، اور کارکنوں کے حقوق میں بہتری

قومیانے کاا اگلا بڑا اقدام جنوری 1974 کو ہوا، جب بھٹو نے تمام بینکوں کو قومی کردیا تھا۔سیریز کا آخری مرحلہ ملک بھر میں تمام آٹے، چاول اور روئی کی ملوں کو قومی بنانا تھا۔ یہ قومیانے کا عمل اتنا کامیاب نہیں تھا جتنا بھٹو کی توقع میں تھا۔


 اگرچہ بھٹو کی پیپلز پارٹی نے 1977 کے انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی، لیکن پاکستان قومی اتحاد - نو جماعتوں کے اتحاد نے ان پر ووٹ میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا۔ پُر تشدد شہری بدامنی نے جنرل ضیاء الحق کے ماتحت فوج کو سیاسی میدان میں ایک زبردست واپسی کا بہانہ دیا اور 5 جولائی 1977 کو پاکستان کو پھر سے فوجی حکمرانی میں رکھا گیا اور 1973 کا آئین معطل کردیا گیا۔

اقتدار سنبھالنے پر جنرل ضیاء نے تمام سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کردی اور پاکستانی ریاست اور معاشرے کو”اسلامی طرز“ پر ڈھالنے  کے عزم کا اظہار کیا۔ اپریل 1979 میں بھٹو کو قتل کے الزامات میں پھانسی دی گئی اور پیپلز پارٹی کی باقی قیادت کو جیل میں بھیج دیا گیا یا جلاوطن کردیا گیا۔ غیر جماعتی انتخابات کرانے اور اسلام پسندی کی پالیسیوں کا ایک سلسلہ شروع کرکے، ضیا نے پاکستانی سیاست میں فوج کے کردار کو قانونی حیثیت دینے کی امید میں ایک مقبول حمایت حاصل کرنے کی کوشش کی۔

 دسمبر 1979 میں افغانستان پر سوویت حملے کے نتیجے میں پاکستان کے فرنٹ لائن اسٹیٹ بننے کے بعد جنرل ضیاء کی حکومت کو عالمی سطح پر قبولیت ہوئی۔ اگرچہ پاکستان تب  سیٹو اور سینٹو دونوں سے باضابطہ طور نکل چکا تھا اور غیرجانبدار تحریک میں شامل ہو گیا تھا۔سرمایہ دار ممالک  کے پاس اہم فرنٹ لائن ریاست کی حیثیت  بننے کے بعد پاکستان امریکی فوجی اور مالی امداد کا ایک بڑا وصول کنندہ  بن گیا۔ اس عرصے میں ملک کے اندر عدم اطمینان کی  لہریں اٹھتی رہیں۔

اگرچہ بڑی معرکہ آرائی ٹوٹ گئی تھی، نظریاتی فرقوں کے سبب سپلینٹر گروپ بننے اور مستقل طور پر زور پکڑنے کی وجہ بن گئی۔ 1977 میں بھٹو جنرل ضیاء الحق  دور میں بھی  بڑے پیمانے پر سول نافرمانی باقی رہی۔ اس کے بعد فوجی حکومت نے جنرل رحیم الدین خان کو صوبہ بلوچستان میں مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر مقرر کیا۔ جنرل رحیم الدین کی سربراہی میں صوبائی فوجی حکومت نے مرکزی حکومت سے الگ ایک الگ وجود اور فوجی حکومت کے طور پر کام کرنا شروع کیا۔ جنرل ضیاء الحق اور جنرل رحیم الدین خان دونوں نے اسلحہ ترک کرنے کے خواہشمند افراد کوبلوچستان میں عام معافی دینے کے اعلان کی حمایت کی۔ تب جنرل رحیم الدین نے جان بوجھ کر نواب اکبر خان بگٹی اور عطا اللہ مینگل کو صوبائی پالیسی سے الگ تھلگ کردیا۔

 انیس سو تیراسی میں ایم آرڈی کی تحریک چلی۔ جس نے ضیاء الحق  کی قانونی اور سیاسی حیثیت کو چیلینج کیا۔ تو دسمبر 1985  میں یک متنازعہ ''اسلامی'' ریفرنڈم میں اپنی سیاسی  حیثیت کی تصدیق کرانے کی کوشش کی۔ اسکے بعد، صوبائی اور قومی اسمبلیوں کے غیر جماعتی انتخابات کرائے۔ بڑی سیاسی جماعتوں نے غیر جماعتی  پلیٹ فارم کی وجہ سے 1985 کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا۔ سیاسی جماعتوں کی عدم موجودگی میں امیدواروں نے مقامی امور پر توجہ دی جس نے امیدواروں کی اکثریت کو خاص پارٹیوں سے وابستہ کردیا۔ صدر ضیاء کا پہلا اقدام 1973 کے آئین میں ایسی ترامیم متعارف کروانا تھا جو پارلیمانی نظام پر ان کے اقتدار کو محفوظ بنائے۔ آٹھویں ترمیم جمہوری نظام پر لوگوں کے اعتماد کے لئے سب سے زیادہ نقصان دہ نکلی۔ اب صدر کسی بھی قدم اٹھانے کے لئے مکمل کنٹرول اور طاقت کے مالک ہوسکتے ہیں، جو ان کے خیال میں قومی سالمیت کو محفوظ رکھنے کے لئے ضروری تھا۔ اگلے بارہ سالوں تک صدور نے اس ترمیم کو متعدد وزرائے اعظم کو ان کے عہدے سے بے دخل کرنے کے لئے استعمال کیا، جس کی بنیادی وجہ اقتدار میں تبدیلی سے متعلق ذاتی جدوجہد یا عدم تحفظ کا ہے۔

 1973 کے آئین میں کئی ترمیم کا سلسلہ متعارف کرانے کے بعد، ضیاء نے آخر کار مارشل لا اٹھا لیا اور پاکستان میں ایک نئے جمہوری عہد کے آغاز کا اعلان کیا۔

یہ نیا جمہوری دور پاکستان کی سابقہ سیاسی تاریخ کی طرح ہی ہنگامہ خیز تھا۔ 

1985 کے انتخابات کے بعد، محمد خان جونیجو کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔ انہوں نے فوج سے سول اتھارٹی میں آسانی سے منتقلی کو فروغ دیا، ضیاء اور پارلیمنٹ کے درمیان توازن برقرار رکھنے میں کامیاب رہے۔ 

 لیکن 29 مئی 1988 کو صدر ضیاء نے قومی اسمبلی کو تحلیل کردیا اور آئین کے 58-2-B آرٹیکل کے تحت وزیر اعظم جونیجو کو ہٹا دیا۔ انہوں نے دعوی کیا کہ جونیجو اپنے منصب کو خراب کرنے کے لئے ان کے خلاف سازشیں کررہا تھا۔ انہوں نے قومی اسمبلی کو بدعنوانی اور اسلامی طرز زندگی کو نافذ کرنے میں ناکامی کا الزام لگایا۔

جنرل ضیا ایک بار پھر  انتخابات غیر جماعتی بنیادوں پر کروانا چاہتے تھے جیسا کہ 1985 میں ہوا تھا، لیکن سپریم کورٹ نے اس کو برقرار رکھا کہ یہ آئین کی روح کے خلاف ہے۔ اسلام کے نام پر سیاسی نظام کی تشکیل نو کے لئے انتخابات ملتوی کرنے کی ضیا کی تجویز کے نتیجے میں سیاسی الجھن پیدا ہوئی۔ یہ خدشہ تھا کہ ضیا مارشل لاء نافذ کرسکتا ہے اور مسلم لیگ ضیا اور جونیجو کے حامیوں میں تقسیم ہوگئی۔ یہ سب اس وقت تعطل کا شکار تھا جب اگست 17 کو ضیاء کا ہوائی جہاز کے حادثے میں انتقال ہوگیا تھا۔

غلام اسحاق خان نے سینیٹ کے چیئرمین ہونے کی حیثیت سے حلف لیا اور انتخابات کا  اعلان کیا۔یہ بات باعث حیرت تھی کہ فوج آسانی سے اقتدار سنبھال سکتی  تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔نومبر 1988  میں پندرہ  برس کے بعد پہلی بار سیاسی پارٹی کے پلیٹ فارم پر مبنی  انتخابات ہوئے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نشستوں کی واحد سب سے بڑی ہولڈر بن کر ابھری۔ مشروط طور پر بینظیر بھٹو کو وزیراعظم نامزد کیا گیا۔یہ شرائط بہت کڑوی تھیں۔

1990 میں صدر  غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کو آئین میں آٹھویں ترمیم کے تحت برطرف کردیا۔ چنانچہ ایک بار پھر دو سال بعد ہی انتخابات ہوئے۔

پاکستانی عوام جمہوری نظام پر اعتماد کھو رہے تھے۔ انہوں نے محسوس کیا کہ یہ بدعنوان، بدحواس ہے اور فوجی اور بیوروکریٹک اشرافیہ کی اسکوبلیز پر مبنی ہے۔ اس رویئے کو اس حقیقت سے تقویت ملی کہ 1990 میں نواز شریف کو وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا، اور 1993 میں برطرف کیا گیا تھا حالانکہ انہوں نے آزادانہ سرمایہ کاری کی تھی، ملکی اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کیا تھا

 صدر غلام اسحاق خان پر شریف برطرفی میں بے نظیر بھٹو کے ساتھ سازش کرنے کا الزام تھا۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی اور شریف کو غیر آئینی، شریف اور قومی اسمبلی کی بحالی کو غیر آئینی قرار دیا۔ اس ایکٹ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ صدر غالب اختیار نہیں تھے بلکہ اس کے بعد ہونے والے واقعات نے یہ ثابت کردیا کہ حکومت کتنی غیر مستحکم ہے۔ ر

 اس صورتحال نے نظام میں ہلچل مچا دی جس کے نتیجے میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عبدالوحید کاکڑ نے مداخلت کی۔جنرل کاکڑ فارمولہ  کے مطابق صدغلام اسحاق خان ر اور وزیر اعظم  نواز شریف دونوں مستعفی ہوئے  اور نئے انتخابات کا انتظام کیاگیا۔

 اس انتخاب میں مینڈیٹ انہی کھلاڑیوں نے تقسیم کیا تھا ایک بار پھر پیپلز پارٹی نے اکثریت کی نشستوں کا دعوی کیا اور بھٹو کو وزیر اعظم کے طور پر رکھا گیا۔ وہ فاروق احمد خان لغاری کو صدر منتخب کرنے میں کامیاب رہی،ان کا خیال تھا کہ ان کی پارٹی کے صدر فاروق لغاری انہیں آتھویں ترمیم کی تلوار سے محفوظ رکھیں گے۔ چیف جسٹس اور صدر دونوں ہی حکومت میں اپنے منصب کی خود مختاری کو برقرار رکھنا چاہتے تھے، جبکہ بینظیر بھٹو سیاسی نظام کو زیر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ صدر لغاری نے جلد ہی انہیں سپریم کورٹ کی حمایت سے برخاست کردیا۔ 

 آئین میں تیرہ ترمیم کو متعارف کرانے کے ساتھ مسلم لیگ نے اپنی پارلیمانی اکثریت کو سیاسی نظام میں بنیادی تبدیلی کے لئے استعمال کیا۔ تیرہویں ترمیم نے مرکزی حکومت کے اقتدار کی حیثیت سے پارلیمنٹ کی بحالی کے دوران صدر کے اقتدار کو برائے نام سربراہ برائے مملکت تک محدود کردیا۔ اس ترمیم نے بنیادی طور پر سیاسی استحکام کو برقرار رکھنے کی کوشش میں آرٹیکل آٹھ کے لئے چیک اینڈ بیلنس کا طریقہ کار تشکیل دیا تھا۔ 1999 تک آٹھویں ترمیم کو ان رکاوٹوں سے دور کردیا گیا جن سے صدر کو قومی اسمبلی تحلیل کرنے یا وزیر اعظم کو برخاست کرنے کا اختیار دیا گیا۔

ہنگامہ

وزیر اعظم نواز شریف بہت سے محاذوں پر نامنظور ہو رہے تھے۔ انہوں نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور آرمی چیف کو آٹھویں ترمیم میں ترمیم کے فورا  بعد ہی مجبور کردیا تھا، وہ پریس پر دباؤ ڈال رہے تھے۔ شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ آرمی چیف، جہانگیر کرامت، بہت سارے افراد میں شامل تھے جو نواز شریف کی بڑھتی ہوئی طاقت سے پریشان تھے، انہوں نے سول حکومت کو متوازن بنانے کی کوشش میں فوج کو ملک کے فیصلہ سازی کے عمل میں شامل کرنے کا مطالبہ کیا۔ دو دن بعد اس نے جنرل پرویز مشرف کو اپنے عہدے پر رکھنے سے استعفیٰ دے دیا۔ مشرف ہندوستان کے ساتھ کشمیری بحران کے ایک اہم حکمت عملی تھے۔ اسے جلد ہی شبہ ہوا کہ انہیں کشمیر میں اپنی جارحانہ جدوجہد میں سول حکومت کی سیاسی حمایت حاصل نہیں ہے۔نواز شریف کی کشمیری حزب اختلاف میں عدم دلچسپی، بڑھتے ہوئے گروہوں کے تنازعات، دہشت گردی نے مشرف کو سول  حکومت کا تختہ الٹنے کے لئے بغاوت کی رہنمائی کرنے کا جواز فراہم کیا۔ 12 اکتوبر 1999 کو انہوں نے شریف اور مسلم لیگ کو کامیابی کی بنیاد پر اس بنیاد پر بے دخل کردیا۔

 لیکن پرویز مشرف نے اکتوبر 2002 تک انتخابات کے توسط سے قومی اسمبلی کی بحالی سے انکار کردیا تھا، یہ ایک آخری تاریخ تھی جو سپریم کورٹ نے مقرر کی تھی۔ جولائی 2001 میں، مشرف نے پاکستانی حکومت کے اندر اپنے اختیار کو قانونی حیثیت دینے کے لئے ہندوستانی وزیر اعظم سے ملاقات سے قبل خود کو صدر قرار دے دیا۔ اس کے بعد انہوں نے پاکستان کے ذریعے تمام علاقائی عسکریت پسند اسلامی دھڑوں کو واپس بلا لیا ہے اور انہیں حوصلہ دیا ہے کہ وہ اپنے اسلحہ مرکزی حکومت کو واپس کردیں۔

 اب وہ دہشت گردی کے خلاف اتحاد میں امریکی حکومت اور مغربی دنیا کے ساتھ تعاون کر رہا ہے، جس کی وجہ سے وہ اپنے افغانستان کے پڑوسیوں اور پاکستان کے اندر موجود قبائلی گروہوں کے ساتھ عجیب و غریب حیثیت میں ہے جو نسلی، نظریاتی اور سیاسی طور پر طالبان اور اسامہ بن لادن سے ہمدردی رکھتے ہیں۔


Labels: Rafiq Khoso

posted by Sangi | 8:06 PM | 0 Comments