Sangi سهيل سانگي

سهيل سانگي سنڌي ڪالم ۽ آرٽيڪل About Current political, economic media and social development issues

Wednesday, March 10, 2021

Imran Khan-Sindh,

 میرے دل میرے مسافر سہیل سانگی 

عمران خان نے 2016 میں سندھ میں اپنی مہم کا آغاز اس نعرے سے کیا تھا کہ سندھ کے لوگ پیپلزپارٹی پر اعتماد نہیں کرتے۔ اور اب براہ راست پارٹی کی قیادت کو نشانہ بنایا اور کہا کہ ’’سندھ کے لوگ اٹھیں سڑکوں پر آئیں اور فرعون کا بھگانے میں ان کا ساتھ دیں۔ ‘‘
نواز شریف کے خلاف عمران خان کی مہم پاناما مقدمہ کی وجہ سے نقطہ انتہا کو پہنچی۔ اور وزیراعظم کو نااہل قرار دے دیا گیا۔ لیکن ان کی یہ مہم تب کامیابی سے ہمکنار ہوئی جب عدالت بیچ میں آئی۔ ورنہ عوامی احتجاج کے ذریعے وہ نواز شریف کو نہیں ہٹا پائے تھے۔ 
رواں سال اپریل میں عمران خان نے اعلان کیا کہ اب وہ سندھ پر توجہ دیں گے۔انہوں نے اپریل میں لاڑکانہ اور دادو اور بدین کا دورہ کیا۔ لاڑکانہ سے دادو تک ریلی نکالی۔ مختلف مقامات پر جلسوں سے خطاب کیا۔ دادو میں لیاقت جتوئی نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔

پیپلزپارٹی نے اس خطرے کو بھانپ لیا۔ اور دفاعی حکمت عملی بنانے کی کوشش کی۔زرداری نے اعلان کیا کہ عمران خان نوجوانوں کے لیڈر نہیں ہو سکتے۔

زرداری کے اس اعلان کے بعد صوبے کے مختلف شہوں میں بلاول بھٹو زرداری اور اس کے ساتھ صوبائی یا مقمای قیادت کے پنافلیکس لگائے گئے۔

سندھ اسمبلی نے ماہ مئی میں عمران خان کے خلاف قرارداد منظور کی یہ قرارداد اگرچہ نواز لیگ کی سورٹھ تھیبو نے پیش کی تھی۔ لیکن اس کی حمایت ایم کیو ایم اور پیپلزپارٹی نے بھی کی۔ اس قرارداد کے ذریعے پیپلزپارٹی فی الحال یہ بتانے میں کامیاب ہوگئی کہ سندھ کی مین اسٹریم سیاسی جماعتیں تحریک انصاف کے ساتھ ہیں۔ 
عمران خان کی حکمت عملی یہ ہے کہ وہ جلسوں اورجلوسوں کے ذریعے سندھ کے نوجوانوں کو سڑکوں پر لے آئے اور دیہی علاقوں میں پیپلزپارٹی سے ناراض یا اسکے مخالفین الیکٹ ایبل کو کٹھا کرے۔یہ تمام کام وہ اپنے بل بوتے پر کرنا چاہتا ہے۔ فی الحال وہ سندھ کے سیاسی جماعتوں یا قوم پرستوں سے بات نہیں کرنا چاہتا۔ عمران خان سندھ کا دورہ کرتے ہیں تو سرگرمی ہوتی ہے۔ وہ چلے جاتے ہیں تو ان کی پارٹی کی جانب سے یہاں کوئی سرگرمی نہیں ہوتی۔ لیاقت جتوئی کی پارٹی میں شمولیت سے یہ تاثر دیا جارہا تھا کہ تحریک انصاف نے ایک بڑا معرکہ مار لیا ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کے قلعہ سمجھ اجانے والے اس صوبے میں وہی خاموشی رہی۔ 
نواز شریف کی حکمت عملی سے مختلف تھی۔ ان کی توجہ پہلے سے موجود گروپوں اور سیاسی جماعتوں سے اتحاد کر کرنا اور ایلیکٹ ایبل کو ملانارہا۔ لیکن یہ کام وہ انتخابات کے موقعہ پر کرتے تھے۔ نواز شریف نے کبھی بھی براہ راست سندھ کے عام لوگوں کو اپیل نہیں کی۔ 
غیر پیپلزپارٹی ووٹرز ایک جگہ پر ڈالے جاسکتے ہیں؟ 
قوم پرست کس کا ساتھ دیں گے؟ نواز شریف یا عمران خان کا؟
سندھ کا متوسط طبقہ کیا رول ادا کرتا ہے؟ صوبے میں مجموعی طور پر شہری آبادی میں اضافہ ہوا ہے۔ جب ہم شہری آادی کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے چھوٹے چھوٹے شہر بڑے ہوئے ہیں۔ دیہی علاقوں سے لوگ بڑے شہروں اور ماضی کے ان چھوٹے شہروں میں منتقل ہوئے ہیں۔ 
تعلیم یافتہ طبقے سے تبدیلی کیتوقع کی جاسکتی ہے؟ مڈل کلاس یا شہری طبقہ اپنے جوہر میں یا سائنسی سوچ کا مالک ہے؟ پڑھا لکھا غیر سیاسی طبقہ نے وڈیروں کا ساتھ دیا ۔ اپنی ذاتی ترقی یا اختیارا کا ذریعہ بنایا ہے۔ متوسط طبقہ اشرافیہ کا اتحادی اور ساتھی ہے۔ اور کرپشن میں اپنا ھصہ لے رہا ہے۔ 

Sep 14, 2017

Labels:

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home