Sangi سهيل سانگي

سهيل سانگي سنڌي ڪالم ۽ آرٽيڪل About Current political, economic media and social development issues

Thursday, September 06, 2018

وزیراعظم صاحب! حالات کو عوام کی نظر سے دیکھیئے


وزیراعظم صاحب! حالات کو عوام کی نظر سے دیکھیئے

میرے دل میرے مسافر سہیل سانگی
وزیراعظم عمران خان کا ایک سو روز کا ایجنڈا جو لوگوں کو کوئی رلیف دے سکے، اس کے لئے ابھی مختلف ٹاسک فورسز اور کمیٹیوں نے کام شروع کیا ہے۔ لیکن اس سے قبل عام لوگوں کے لئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ یہ دور کی بات ہے کہ وہ عملا کتنارلیف دے گا۔ تحریک انصاف کے دو فیصلے معاشی طور پرعام آدمی پر چار سو ارب روپے سے بھی زائد رقم کا بوجھ ڈال دیں گے۔ یہ ہیں بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ۔ بجلی کی قیمت میں دو روپے فی یونٹ کا اضافہ کا فیصلہ کیا جاچکا ہے، جبکہ وزیراعظم عمران خان کی حال ہی میں قائم کردہ اکنامک کوآرڈی نیشنل کونسل گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ کرنے جارہی ہے۔ گزشتہ ہفتے حکومت نے تین کی قیمتوں مین کمی کا اعلان کیا تھا۔ تیل کی قیمتوں میں کمی کا فائدہ عام اور غریب لوگوں تک عموما نہیں یا پہنچ پاتا جو پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرتے ہیں۔ یہ فائدہ ذاتی گاڑیاں استعمال کرنے والوں تک ہی محدود رہتا ہے۔ وہ بھی عمل درآمد کا مکینزم کمزور ہونے کی وجہ سے مکمل طور پر نہیں ملتا۔ 
اس سے قبل حکومتی حلقوں نے یہ منادی کردی کہ ہمارا گردشی قرضہ پچھلے برسوں میں حکومت کی طرف سے بار بار خطیر ادائیگیوں کے باوجود بڑھ کر 596ارب روپے ہو چکا ہے۔ گزشتہ ماہ جولائی میں گردشی قرضے میں 30ارب روپے کا حیران کن اضافہ ہوا۔مزید یہ بھی انکشاف سامنے آیا کہ پاور ہولڈنگ کمپنیوں کا بھی 582ارب روپے کاگردشی قرضہ ہے لہٰذاحقیقی واجبات کی رقم 1188ارب روپے بنتی ہے۔ 
پی ٹی آئی کی حکومت نے بجلی کے ٹیرف میں 2روپے فی یونٹ اضافہ کردیا ہے جس سے صارفین پر 200ارب روپے کا اضافی بوجھ پڑے گا۔ مزید یہ کہ انڈسٹریل سپورٹ پیکج ختم کر کے صنعتی ہونٹس کے لیے 3روپے فی یونٹ مزید مہنگی کر دی ہے،یعنی صنعتوں کے لیے بجلی 5روپے مہنگی کر دی گئی ہے۔ تحریک انصاف جب اپوزیشن میں تھی یہ کہتی تھی کہ پاکستان میں بجلی بہت مہنگی ہے جس سے ملک کی صنعتیں نہیں چل رہیں اب بجلی مزید مہنگی کی گئی ۔ صنعتی یونٹس کے لیے 3روپے فی یونٹ کی سبسڈی ختم کرنے سے ملکی ایکسپورٹ متاثر ہو گی۔
بجلی کے نادہندگان کو پری پیڈ میٹر فراہم کرنے کی ایک تجویز بھی زیرغور ہے تاکہ پیشگی ادائیگی کے بعد ہی بجلی کی فراہمی ممکن ہو۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ صارفین سے گیس یا بجلی کی فراہمی سے پہلے رقم لے لی جائے۔ پیشگی ادائیگی کا نظام مضبوط انتظام کاری میں ہی موثر ہوتا ہے۔ اصل میں یہ تجویز گردشی قرضہ میں مزید اضافہ سے بچنے کے لئے ہے۔اور یوں یہ سارا قرضہ خفیہ انداز میں صارفین پر منتقل کرنے کی کوشش ہے۔ پری پیڈ نظام میں صارفین کو قیمتوں میں رلیف دیا جاتا ہے۔لیکن اس کے نتیجے میں ہوگا یہ کہ لاکھوں کی تعداد میں پری پیڈ میٹرز کی خریداری کا بوجھ بھی صارفین پر پڑے گا۔ نئے میٹرز رائج کرنے کا تجربہ مشرف دور میں شروع کیا گیا تھا۔ اور نئے میٹرز کے نام پرصارفین سے لاکھوں روپے وصول کرنے کے باوجود صارفین کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ البتہ یہ ضرور ہوا کہ میٹرز بنانے والی کمپنیوں نے لاکھوں میٹرز بنائے اور بیچے۔ 
اکنامک کوآرڈی نیشن کونسل کے پہلے اجلاس میں گھریلو صارفین کے لئے گیس کی قیمتوں میں180فیصد اورکمرشل، انڈسٹریل اور پاور سیکٹر کے لئے30فیصد اضافے کی سمری پیش کی گئی ہے۔ وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ پچھلی حکومت نے4سال میں گیس کے نرخوں میں ایک بار بھی اضافہ نہیں کیا جس سے آئل اینڈ گیس سیکٹر خصوصاً گیس کمپنیوں کو شدید مالی نقصانات کا سامناکرنا پڑ رہا ہے۔ آئل اینڈ گیس ریگیولیٹری اتھارٹی ( اوگرا )کے قوانین کے مطابق سال میں دو مرتبہ قیمتوں پر نظر ثانی کرنی ہے۔ عموما گیس اور تیل کی قیتوں کا تعین ان کی عالمی مارکیٹ کی قیمتوں کے پیش نظر کیا جاتا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران ان کی قیمتیں کم رہی۔ جس کی وہ سے گزشتہ حکومت کو موقع ملا کہ وہ گیس کی قیمتیں نہ بڑھائے۔ 
گیس فراہم کرنے والی دو کمپنیوں سدرن گیس کمپنی اور نادرن گیس کمپنی کے خلاف گیس کی زیان کے تنازعات عدالتوں میں زیر ساعت ہونے کی وہ سے بھی قیمتوں میں اضافہ نہیں کیا جاسکا۔ اوگرا میں کبھی کبھی قورم پورا ہونے کا بھی مسئلہ رہا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت سے لے کر گیس کے معاملات نیب اور سپریم کورٹ میں زیر تفتیش رہے۔ 
گزشتہ حکومتیں سیاسی قیمت ادا کرنے سے خوف زدہ تھیں۔ اب توضیح یہ نکالی جارہی ہے کہ عالمی مارکیٹ میں قیمتیں بڑھ گئی ہیں۔ بعض نئی گیس فیلڈ سے نکالی جانے والی گیس کی قیمت پیداوار میں اضافہ ہوا ہے۔ پرانی گیس فیلڈ میں گیس کی کمی ہوئی ہے۔ 
اطلاعات کے مطابق توانائی کے وفاقی وزیر غلام سرور خان کی زیر قیادت اعلیٰ حکام نے وزیراعظم عمران خان کو گیس کے نرخ بڑھانے سے متعلق آگاہ کیا ۔ وزیراعظم کو یہ بھی بتایا گیا کہ 50ارب روپے کی گیس سالانہ چوری ہوتی ہے۔اگرچہ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے متعلق کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔ پیٹرولیم ڈویژن نے خاص طور پر چار سال تک قیمتوں میں اضافہ نہ کرنے کا جواز پیش کر کے قیمتیں بڑھانے کی جو تجویز دی ہے۔ 
گیس اور بجلی کی چوری اور ان کے زیان (لائن لاسز) قیمتوں میں اضافہ کی بڑی وجہ رہے ہیں۔ ان نقصانات کی وجوہات تکنیکی ہوں یا انتظامی کمپنیوں کی کارکردگی اور نااہلی میں شمار کی جائین گی۔ کمپنیاں یہ دونوں نقصانات کا بوجھ صارفین پر ڈالتی رہی ہیں۔ حالانکہ یہ وہ نقصانات ہیں جو خود کمپنیوں کو اٹھانا چاہئیں۔ 
ہمارے معاشرے مین یہ عام سی بات ہے کہ کسی محکمہ میں کسی ضلع سطح پر بھی نیا افسر آتا ہے، خاص مفادات رکھنے والے گروہ سرگرم ہو جاتے ہیں۔ اپنا کام نکلوا تے ہیں۔و زیراعظم اور اسکی معاشی اور سے متعلق ٹیم کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بالکل سی طرح جب کبھی حکومتی تبدیلی ہوتی ہے، کئی خاص مفادات رکھنے والے گروپ اپنی بات منوانے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں۔ اور اپنا مفاد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
وزیراعظم صاحب! اس پوری تجویز کو کمپنیوں کی آنکھ سے نہیں ان لاکھوں عوام کی آنکھ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جن کو آپ نے تبدیلی اور بہتر زندگی کا خواب دکھا کر ووٹ حاصل کئے تھے۔ آپ عوام کے نمائندے ہیں۔ کمپنیوں کے نہیں۔ خاصے معاملات گیس اور بجلی کی کمپنیوں کی کارکردگی بہتر بنانے سے ٹھیک ہو سکتے ہیں۔لہٰذا قیمتیں بڑھانے سے پہلے گیس اور بجلی کی چوری، ان کے زیان کے معاملات کو دیکھا جائے۔
ایک ساتھ گھریلو صارفین کے لئے گیس کے نرخوں میں تین گنا اضافہ مہنگائی کے شکار عام لوگوں کے لئے جینا مشکل کردے گا۔ صنعتی و تجارتی شعبے پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔ گیس اور بجلی وہ اجن ہیں جس کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی بڑھ جاتی ہے۔ اشیائے صرف کی قیمتوں سے لیکر کر ترانسپورٹ کے کرایوں تک، اور تجارتی و صنعتی شعبوں میں روز گار کے مواقع سے لیکر درآمدات تک سب پر اس کا منفی اثر پڑتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا نئی حکومت کی ساکھ بھی اس غیر معقول اضافے کی متحمل ہو سکتی ہے؟۔ جب تک تحریک انصاف کے منشور پر عمل شروع ہو، اور اس کے خوشگوار اثرات لوگوں تک پہنچیں، تب تک انکو معاشی رلیف دینے کی ضرورت ہے۔

Labels: , , , ,

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home