Sangi سهيل سانگي

سهيل سانگي سنڌي ڪالم ۽ آرٽيڪل About Current political, economic media and social development issues

Wednesday, February 05, 2014

سندھ فیسٹیول سیاست یا موئن جو دڑو کا تحف٭۔۔۔



موئن جو دڑو پر سندھ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کے انعقاد نے رائے عامہ کو پیپلز پارٹی پر تنقید کی دعوت دے دی ہے۔ میڈیا سے سوشل میڈیا تک اور عام گفتگو میں یہی موضوع زیر بحث ہے۔اس موقع پر کراچی سمیت بعض شہروں میں احتجاجی بھی ہوا، موبائل فون پر مسیج بھی چلے اور سوشل میڈیا میں گرما گرم بحث چھڑی ہوئی ہے۔

سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اتنی بڑی تقریب کے انعقاد سے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے آثاروں کو نقصاب پہنچے گا جو پہلے ہی زبون حالت میں ہیں۔

ایک تنقید یہ بھی ہے کہ ثقافت اور سندھیت کے نام پر پیپلز پارٹی اپنے نئے چہرے بلاول بھٹو زرادری کو متعارف کرانا چاہتی ہے ۔تعجب کی بات ہے کہ سندھ میں غذائیت کی کمی، امن و امان، صحت، تعلیم کی تباہ کن صورتحال ہے۔ جس نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ لیکن ان مسائل کو ایک طرف رکھ کر ثقافت کو زندہ کرنے کا نعرہ دیا جارہا ہے۔

شاید یہ چاروں سوال مشکل ہیں کیونکہ ان کا تعلق گورننس سے ہے۔ اور گورننس کو ٹھیک کرنا بلاول بھٹو یا پیپلز پارٹی کے بس کی بات نہیں لگتا لہٰذا ثقافت کے نام پر لوگوں کے دلوں میں جگہ تلاش کی جارہی ہے۔

بلاول بھٹو نے اس پروگرام کے ذریعے سندھ میں مذہبی انتہاپسندی کو روکنے کا دعویٰ کیا ہے۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ انتہا پسندی اور تشدد میں اضافہ اس وجہ سے ہوا ہے کہ گورننس ختم ہوگئی ہے۔ اور گورننس کے فقدان کی وجہ سے ہی لوگ اسلامی قوانین وغیرہ میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔

اس فیسٹیول سے موئن جو دڑو کوا فائدہ پہنچے گا؟ تقریب میں جن لوگوں کو بلایا گیا تھا ان کو غالبا ان آثار کی اہمیت اور زبون حالی دونوں کا پتہ ہے۔ نہ باہر سے کسی ایسے ادارے یا حکومت کے نمائدنے کو بلایا گیا جو اس ثقافتی ورثے کے تحفظ میں مدد کرے اور نہ ہی غیرملکی میڈیا کو خاص طور بلایا گیا جو اس مہم میں مدد دے۔ تقریب پر پچہتر سے پچاسی کروڑ روپے تک کی رقم خرچ کی گئی۔ یہ ایک خطیر رقم ہے جو ان آثار کے تحفظ کے لیے استعمال کی جاسکتی تھی۔ موئن جو دڑو کو جشن کی نہیں تحفظ کی ضرورت ہے۔جو پہلے ہی تباہی کے کنارے پر پہنچ چکے ہیں۔ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے آثار اس دہانے پر جا پہنچے ہیں کہ یہ ایک بار پھر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے اور اس مرتبہ اس کے نشانات بھی نہیں ملیں گے۔ ہمیں صرف تاریخ کی کتابوں میں اس کاذکر اورچند تصاویر ہی ملیں گی۔

موئن جو دڑو اعلیٰ رہن سہن کا شاہکار بھی ہے۔پختہ دیواروں، گلیاں باتھ روم، دو منزلہ مکانانت جن میں دو کمرے ایک دوسرے سے منسلک، منظم آب رسانی اور نکاسی انتظام، جو کہ بہت ہی تہذیب یافتہ شہری آبادی کا جیتا جاگتاثبوت ہے۔ مذہبی تقریبات کے اجتماعی غسل خانہ، اناج کا گودام، اسمبلی ہال، بڑے بڑے مکانات، گرڈ سسٹم روڈ، اور نکاسی آب کا ایسا نظام جو شاید ہند و پاک میں آج بھی ایک خواب ہو۔

یونیسکو نے اسی کے عشرے میں ان آثار کو عالمی ورثے قرار دیا تھا۔ فن تعمیر اور شہری منصوبہ بندی کی اس انوکھی مثال کا کبھی جامع سروے بھی نہیں کیا گیا جس سے اندازہ ہوسکے کہ یہ شہر کتنے میل میں پھیلا ہوا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بمشکل دس فیصد حصے کی کھدائی کی گئی ہے۔ لہٰذا تاریخ کے کئی خزانے ابھی تک زمین میں مدفون ہیں۔

جرمن محقق مائیکل جانسن نے جان مارشل کی فیلڈ بک میں اس قدیم شہر سے برآمد ہونے والے تین ہزار نوادرات کا پتہ لگایا تھا جن میں سے بیشتر غائب ہیں۔ جو نوادرات میوزیم میں محفوظ کئے گئے تھے وہ بھی وہاں محفوظ نہیں ۔ کئی مہریں میوزیم کی دیوار توڑ کر چوری کرلی گئیں۔ ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں اس عالمی ورثے کو بچانے کے لیے ملکی

سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ انیس سو چوہتر میں یونیسکو کی مدد سے موئن جو دڑو بچانے کے لیے ماسٹر پلان بنایا گیا۔ ان آثار کی بچاؤ مہم کو بعض سیاسی جوہات کی بنا پر بھی دھچکا لگا۔ ضیاء الحق نے عالمی مہم روک دی۔ نواز شریف حکومت میںآئے تو انہوں نے موئن جو دڑو اتھارٹی ہی ختم کردی۔

جرمن اسکالر نے پاکستان کے حکام کی بے احتیاطی کو دیکھتے ہوئے چند برس پہلے کہا تھا کہ اگر اس بڑی دریافت کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تو اس کی قیمت لگائیں، ایک ڈالر ایک اینٹ کے حساب سے ہم خرید کرتے ہیں۔

مقامی صحافی عبدالحق پیرزادو کا کہنا ہے نوے کے عشرے میں جاپانی حکومت نے تجویز دی تھی کہ دس برس تک یہ سائٹ ان کے حوالے کی جائے، وہ اس سائٹ کو شیشے سے ڈھانپ دیں گے اس سے یہ آثار بارشوں، سورج کی تپش اور ہوا وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان حکومت نے جاپان کی تجویز کو قبول کرنے کے بجائے فرمائش کی کہ یہ رقم اس کے حوالے کی جائے۔

وقفے وقفے سے موئن جو دڑو کا دورہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے ہر بار انہیں زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ شہر کے نچلے علاقے میں عمارتوں اور گھروں کے نشانات زیادہ واضح ہیں۔ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کی دیواریں جھک گئی ہیں اور گر رہی ہیں۔ زیر زمین آبی نمکیات اینٹوں کو کھا رہی ہیں۔ جو کھدائی سے پہلے مضبوط اور صحٰح سلامت تھیں۔ ان دیواروں کو لکڑی کے پشتوں کے ذریعے کھڑا کیا گیا ہے۔ جو کہ زیادہ دن تک نہیں چل سکتے۔شہر کے اوپر کے حصے میں دیواریں گر چکی ہیں دوسری گرنے کے دہانے ہیں۔

زیرزمین پانی اور اس میں شامل نمکیات کے علاوہ بارشیں بھی دیواروں کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہیں جو صرف اوپر کی سطح پراثرانداز ہوتی اس کے علاوہ بارش کا پانی کھڑا بھی ہو جاتا ہے۔ ان آثارکی گزشتہ دو سال میں سالانہ مرمت بھی نہیں ہوئی۔ لے دے کر چند ملازمین اس کی جھاڑو لگا کر صفائی کرتے ہیں اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا جارہا ہے۔

تعجب کی بات ہے کہ موئن جو دڑو کی کوئی ویب سائٹ نہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں نہ انٹرنیٹ کی سہولت ہے اور نہ ہی ٹیلیفون کی۔ حد تو یہ ہے موئن جو دڑو کے میوزیم اور اس کی حفاظت کے لیے قائم آفیس میں بھی فون کی سہولت نہیں۔ یونیسکو کے ماہرین کی بھی یہی رائے ہے کہ دیواریں اور اینٹیں گل سڑ رہی ہیں۔ لہٰذا اس ورثے کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

ماہر آثار قدیمہ عاصمہ ابراہیم مایوس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی محکمے کے پاس نہ مہارت ہے اور نہ ہی جذبہ ۔ جس تیزی سے چیزیں خراب ہو رہی ہیں اسکو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بمشکل اگلے بیس سال تک قائم رہ سکے۔ اب حکام کے پاس دو ہی آپشن ہیں۔ ایک یہ کہ اسکو تباہ ہوتے ہوئے دیکھیں، یا پھر اس کو ڈاکومنٹ کرکے واپس زمین میں دفن کردیں۔ جب تک اس کو محفوظ کرنے کے اقدامات اور وسائل نہیں کئے جاتے۔

کیا اس پس منظر میں بلاول بھٹو کا یہ قدم موئن جو دڑو کو بچا سکتا ہے؟

Labels: , , , ,

0 Comments:

Post a Comment

Subscribe to Post Comments [Atom]

<< Home