Sangi سهيل سانگي

سهيل سانگي سنڌي ڪالم ۽ آرٽيڪل About Current political, economic media and social development issues

Wednesday, February 05, 2014

تھر کے خواب اور کوئلہ


گزشتہ بائیس سال سے تھر کے لوگوں کو کیا کیاخواب دکھائے جا رہے ہیں کہ اس ریگستان میں 175ارب ٹن اعلیٰ معیار کا کوئلہ موجود ہے، یہ مقدار دو بڑے تیل پیدا کرنے والے ممالک سعودی عرب اور ایران کے تیل کے مشترکہ ذخائر کے برابر ہے۔ یہ بھی کہ اس کالے سونے کے استعمال سے ایک لاکھ میگاواٹ بجلی دو سو سال تک پیدا کی جاسکتی ہے۔لیکن ہر مرتبہ یہ خواب شرمندہ تعبیر ہوتے ہوتے رہ جاتا ہے۔ کبھی تیل کی لابی، تو کبھی کالاباغ ڈیم کے حامی، تو کبھی وفاق اور صوبائی حکو مت کے درمیان تنازع یا پھر رقم کی عدم موجودگی آڑے آجاتی ہے۔ کالے سونے کے ذخائر نکالنا تھر کے لوگوں کے لیے بادلوں کی طرح ہوگئے ہیں جو ہر مرتبہ آتے تو ہیں مگر برستے نہیں۔ جیسے ہر مرتبہ لوگ بارش کے لیے آسمان میں آنکھیں ڈالے بیٹھے رہتے ہیں اسی طرح لوگ حکومت کے اعلان سنتے رہتے ہیں۔

بینظیر بھٹو نے 1994ء میں تھاریو ہالے پوٹو کے قریب تھر کول فیلڈ کا افتتاح کیا اور اس کوئلے سے سمندر کے کنارے کیٹی بندر کے پاس بجلی گھر قائم کرنے کا اعلان کیا، مگر نواز شریف نے حکومت میں آکر اس منصوبہ کو سرد خانے میں ڈال دیا۔ جنرل مشرف نے بجلی کے بحران اور بعض دیگر وجوہات کی بنا پر تھر کے کوئلے میں ہاتھ ڈالا۔ ان کی سربراہی میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دی گئی۔ مگر بیل منڈھے نہیں چڑھی۔ پیپلز پارٹی کے گزشتہ دور حکومت میں جوہری تونائی کے ماہر ڈاکٹر ثمر مبار ک کرشمے کا دعویٰ کر کے میدان میں آئے کہ وہ تین سال میں زیر زمین ہی کوئلے کو گیس میں تبدیل کر کے استعمال کی ترکیب سے پائلٹ پروجیکٹ شروع کر سکتے ہیں۔ تین سال 2013ء میں مکمل ہوگئے لیکن یہ پائلٹ پروجیکٹ بھی عمل میں نہیں آسکا۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں ایک ارب روپے کی ضرورت ہے جو نہ وفاقی حکومت دے رہی ہے اور نہ ہی سندھ حکومت۔ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کئی مرتبی تھر کوئلے کو یاد کیا۔ لیکن کوئی عملی شکل نہیں نکال سکے۔ ان کے بعد آنے والے پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے تھر فیلڈ کا دورہ کیا اور ایک مرتبہ پھر تھر کے لوگوں کو آسرا دیا۔ مگر نتیجہ صفر رہا۔

تبدیل شدہ حالات میں نواز شریف 31 جنوری کو کوئلہ نکالنے اور اس سے بجلی گھر بنانے کا افتتاح کرنے جا رہے ہیں ۔آج تھر کا کوئلہ دوبارہ یاد آنے کے محرکات یہ ہیں:

الف) زرمبادلہ کی کمی تیل سے پیدا کی جانے والی بجلی کی مہنگائی کے باعث حکومت کے پاس کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ کوئلے کا آپشن اپنائے۔ (

ب) پنجاب 2009ء سے اپنے صوبے میں کوئلے سے بجلی تیار کرنے کے چھ بجلی گھروں پر ہوم ورک مکمل کرچکا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب کے حالیہ بیان کے مطابق اب ان پر کام شروع کیا جا چکا ہے اور چینی اور جرمن کمپنیوں سے معاہدے کئے جارہے ہیں۔ پنجاب اپنے سالٹ رینج سے کوئلہ نکالنے کیساتھ ساتھ بلوچستان کے چمالنگ کے مقام سے روزانہ 2400 ٹن کوئلہ حاصل کرکے بجلی گھر چلانے کا معاہدہ کرچکا ہے۔

ت) گڈانی میں کوئلے پر چلنے والے دس بجلی گھر بنانے کے لیے قطر اور چین سے معاہدے ہو چکے ہیں۔ یہ بجلی گھر پنجاب حکومت قائم کر رہی ہے جن میں درآمد شدہ کوئلہ استعمال کیا جائے گا۔

ث) ایشین ترقیاتی بینک پرانے بجلی گھر کوئلے پر شفٹ کرنے کے لیے بھی بھاری رقم فراہم کر رہا ہے۔ یعنی تھر کا کوئلہ استعمال نہیں کیا گیا لیکن ملک میں ڈیڑھ درجن بجلی گھر کوئلے پر بنائے جارہتے تھے ۔ یہ تمام بجلی گھر درآمد شدہ کوئلے پر ہی بنائے جارہے تھے۔ اس صورتحال نے کئی سوالات کھڑے کردیئے۔ مزید برآں یہ کہ نواز شریف کی وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ کو نظر انداز کرنے پر مختلف حلقوں میں تنقید ہوئی ۔ اور سندھ حکومت بھی زیر تنقید آئی کہ وہ کچھ نہیں کررہی۔یہ ہے وہ پس منظر جس میں ایک بار پھر تھر کے لوگوں کے خواب زندہ کر لیے گئے اور سندھ حکومت اکتیس جنوری کو وزیر اعظم نواز شریف اور آصف زرداری کو تھاریو ہالے پوٹو لے کر جارہی ہے۔

نواز شریف پر سندھ میں یہ بھی سخت تنقید ہوتی رہی ہے کہ 90 کی دہائی میں انہوں نے کیٹی بندر، تھر کول سمیت سندھ کے بعض ترقیاتی منصوبے منسوخ کردیئے تھے۔ ان کے لیے یہ سنہری موقع تھا کہ وہ یہ تنقید دھو ڈالیں۔ یعنی رند کے رند رہے ہاتھوں سے جنت نہ گئی۔

تھر کے لوگوں کو ابھی تک یقین نہیں کہ اس پروجیکٹ پر واقعی عمل ہوگا۔ تھر کول بھی کالاباغ ڈیم کی طرح ہوگیا ہے۔ جس پر ہر فریق سیاست کر رہا ہے۔ کسی کو لالچ، کسی کو آسرا تو کسی کو خواب اور کسی کو اس سے ڈارایا جارہا ہے۔

تھر کول پروجیکٹ کے حوالے سے کئی کہانیاں ہیں۔ چونکہ یہ پروجیکٹ قومی اہمیت کا حامل ہے لہٰذا وفاقی حکومت نے 60 فیصد رقم فراہم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس کے ساتھ سرمایہ کاروں کو مطلوبہ گارنٹی بھی دینے کا فیصلہ کیا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ پیپلز پارٹی پانچ سال حکومت میں رہی لیکن اس نے مطلوبہ رقم فراہم کی اور نہ ہی گارنٹی دی۔ چینی کمپنی کے برسوں تک کام کرنے کے بعد بجلی کا نرخ دیا وہ بھی سرسری طور پر مسترد کردیا گیا۔ حالانکہ یہ نرخ آج کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے کوئی زیادہ نہیں تھا۔ حالانکہ آج ہم تین اور چار گنا زیادہ نرخ ادا کر رہے ہیں۔

کراچی الیکٹرک سپلائی کارپوریشن اپنا ایک بجلی گھر کوئلے پر شفٹ کرنا چاہتی ہے۔ اس مقصد کے لیے بن قاسم پورٹ پر ایک نئی جیٹی بھی تعمیر کی جارہی ہے۔ سندھ حکومت میں اتنا نہیں کر سکی کہ وہ کے ای ایس سی اور گڈانی میں زیر تعمیر دس بجلی گھروں کو پابند بنائے کہ وہ درآمد شدہ کوئلے کے بجائے تھر کا کوئلہ استعمال کریں۔ یوں امپورٹ پر خرچ ہونے والی بڑی رقم بچ جائے گی۔ اور بجلی کی لاگت میں بھی کمی واقع ہوگی۔ اینگروکمپنی جو تھر میں کول پروجیکٹ شروع کر رہی ہے اس کی فرمائش ہے کہ اسے جامشورو کا بجلی گھر بھی بیچ دیا جائے۔ تعجب کی بات ہے کہ نئے پروجیکٹ شروع کرنے والی کمپنی کی آنکھ بنے بنائے اثاثوں پر ہے۔

کوئلے کا پروجیکٹ شروع ہونا اچھی بات ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس سے اس کے ساتھ ساتھ تھر کے لوگوں کو برسوں سے دکھائے جانے والے خواب کی حقیقت کیا ہے اس کا بھی پتہ لگے گا۔ تھر میں کوئلہ اوپن پٹopen pit کے ذریعے نکالا جائے گا۔ یعنی ایک وسیع علاقے میں تین سے چار سو فٹ تک کھدائی ہوگی۔ اس سے زیر زمین پانی کے ذخائر بری طرح سے متاثر ہونگے۔ درخت ، پودے، پرندے اور مال مویشی کے لیے مطلوبہ ماحول ختم ہو جائے گا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ مویشی پالنا تھر کے لوگوں کا دوسرے نمبر پر ذریعہ روزگار ہے۔ اس کے علاوہ متاثرہ علاقے میں گھر، گاؤں، کھیت اور آسائشی زمین بھی متاثر ہوگی جو کہ یہاں کے غریب لوگوں کے جینے کے اہم وسائل ہیں۔ اس صورتحال کے باوجود متاثرہ لوگوں کی بحالی کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی ہے۔ جب کہ پوری دنیا میں تیل، گیس ، کوئلے اور دیگر معدنیات کی کھدائی کے لیے متاثرہ علاقوں میں بنائی جاتی ہے ۔ سٹلمنٹ پالیسی بنانے کا ٹھیکہ ایک نجی کمپنی کو دیا گیا تھا، جو کہ تین سال میں بھی یہ پالیسی نہیں بنا پائی ہے۔ اس حوالے سے اس کمپنی نے بعض سماعتیں کیں جن میں مجوزہ پالیسی کو لوگوں نے مسترد کردیا تھا۔ اب حکومت برطانوی راج کے قانون لینڈ اکیوزیشن ایکٹ مجریہ 1848 کے تحت لوگوں سے زمینیں لے رہی ہے۔ سامراجیوں کا بنایا ہوا قانون ہے جس کا مرکز لوگ نہیں بلکہ زمین اور وسائل تھے۔ یہ اس زمانے کا قانون ہے جب انسانی حقوق کا کوئی تصور ہی نہیں تھا۔ تھر کے لوگ کوئلہ نکالنے پر ناخوش نہیں۔ ان کی صرف اتنی سی فرمائش ہے کہ یہ زیر زمین وسائل ان کے ہیں اور وہ بھی اس قوم کا حصہ ہیں اور اس ملک کے شہری ہیں۔ انہیں اور نہیں کم از کم اپنے وسائل میں تو حصہ دیا جائے۔

Labels: , , , , , ,

سندھ فیسٹیول سیاست یا موئن جو دڑو کا تحف٭۔۔۔



موئن جو دڑو پر سندھ فیسٹیول کی افتتاحی تقریب کے انعقاد نے رائے عامہ کو پیپلز پارٹی پر تنقید کی دعوت دے دی ہے۔ میڈیا سے سوشل میڈیا تک اور عام گفتگو میں یہی موضوع زیر بحث ہے۔اس موقع پر کراچی سمیت بعض شہروں میں احتجاجی بھی ہوا، موبائل فون پر مسیج بھی چلے اور سوشل میڈیا میں گرما گرم بحث چھڑی ہوئی ہے۔

سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اتنی بڑی تقریب کے انعقاد سے پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے آثاروں کو نقصاب پہنچے گا جو پہلے ہی زبون حالت میں ہیں۔

ایک تنقید یہ بھی ہے کہ ثقافت اور سندھیت کے نام پر پیپلز پارٹی اپنے نئے چہرے بلاول بھٹو زرادری کو متعارف کرانا چاہتی ہے ۔تعجب کی بات ہے کہ سندھ میں غذائیت کی کمی، امن و امان، صحت، تعلیم کی تباہ کن صورتحال ہے۔ جس نے لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ لیکن ان مسائل کو ایک طرف رکھ کر ثقافت کو زندہ کرنے کا نعرہ دیا جارہا ہے۔

شاید یہ چاروں سوال مشکل ہیں کیونکہ ان کا تعلق گورننس سے ہے۔ اور گورننس کو ٹھیک کرنا بلاول بھٹو یا پیپلز پارٹی کے بس کی بات نہیں لگتا لہٰذا ثقافت کے نام پر لوگوں کے دلوں میں جگہ تلاش کی جارہی ہے۔

بلاول بھٹو نے اس پروگرام کے ذریعے سندھ میں مذہبی انتہاپسندی کو روکنے کا دعویٰ کیا ہے۔لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ انتہا پسندی اور تشدد میں اضافہ اس وجہ سے ہوا ہے کہ گورننس ختم ہوگئی ہے۔ اور گورننس کے فقدان کی وجہ سے ہی لوگ اسلامی قوانین وغیرہ میں پناہ ڈھونڈ رہے ہیں۔

اس فیسٹیول سے موئن جو دڑو کوا فائدہ پہنچے گا؟ تقریب میں جن لوگوں کو بلایا گیا تھا ان کو غالبا ان آثار کی اہمیت اور زبون حالی دونوں کا پتہ ہے۔ نہ باہر سے کسی ایسے ادارے یا حکومت کے نمائدنے کو بلایا گیا جو اس ثقافتی ورثے کے تحفظ میں مدد کرے اور نہ ہی غیرملکی میڈیا کو خاص طور بلایا گیا جو اس مہم میں مدد دے۔ تقریب پر پچہتر سے پچاسی کروڑ روپے تک کی رقم خرچ کی گئی۔ یہ ایک خطیر رقم ہے جو ان آثار کے تحفظ کے لیے استعمال کی جاسکتی تھی۔ موئن جو دڑو کو جشن کی نہیں تحفظ کی ضرورت ہے۔جو پہلے ہی تباہی کے کنارے پر پہنچ چکے ہیں۔ پانچ ہزار سال پرانی تہذیب کے آثار اس دہانے پر جا پہنچے ہیں کہ یہ ایک بار پھر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے اور اس مرتبہ اس کے نشانات بھی نہیں ملیں گے۔ ہمیں صرف تاریخ کی کتابوں میں اس کاذکر اورچند تصاویر ہی ملیں گی۔

موئن جو دڑو اعلیٰ رہن سہن کا شاہکار بھی ہے۔پختہ دیواروں، گلیاں باتھ روم، دو منزلہ مکانانت جن میں دو کمرے ایک دوسرے سے منسلک، منظم آب رسانی اور نکاسی انتظام، جو کہ بہت ہی تہذیب یافتہ شہری آبادی کا جیتا جاگتاثبوت ہے۔ مذہبی تقریبات کے اجتماعی غسل خانہ، اناج کا گودام، اسمبلی ہال، بڑے بڑے مکانات، گرڈ سسٹم روڈ، اور نکاسی آب کا ایسا نظام جو شاید ہند و پاک میں آج بھی ایک خواب ہو۔

یونیسکو نے اسی کے عشرے میں ان آثار کو عالمی ورثے قرار دیا تھا۔ فن تعمیر اور شہری منصوبہ بندی کی اس انوکھی مثال کا کبھی جامع سروے بھی نہیں کیا گیا جس سے اندازہ ہوسکے کہ یہ شہر کتنے میل میں پھیلا ہوا تھا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بمشکل دس فیصد حصے کی کھدائی کی گئی ہے۔ لہٰذا تاریخ کے کئی خزانے ابھی تک زمین میں مدفون ہیں۔

جرمن محقق مائیکل جانسن نے جان مارشل کی فیلڈ بک میں اس قدیم شہر سے برآمد ہونے والے تین ہزار نوادرات کا پتہ لگایا تھا جن میں سے بیشتر غائب ہیں۔ جو نوادرات میوزیم میں محفوظ کئے گئے تھے وہ بھی وہاں محفوظ نہیں ۔ کئی مہریں میوزیم کی دیوار توڑ کر چوری کرلی گئیں۔ ستر کی دہائی میں ذوالفقار علی بھٹو کی سربراہی میں اس عالمی ورثے کو بچانے کے لیے ملکی

سطح پر ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ انیس سو چوہتر میں یونیسکو کی مدد سے موئن جو دڑو بچانے کے لیے ماسٹر پلان بنایا گیا۔ ان آثار کی بچاؤ مہم کو بعض سیاسی جوہات کی بنا پر بھی دھچکا لگا۔ ضیاء الحق نے عالمی مہم روک دی۔ نواز شریف حکومت میںآئے تو انہوں نے موئن جو دڑو اتھارٹی ہی ختم کردی۔

جرمن اسکالر نے پاکستان کے حکام کی بے احتیاطی کو دیکھتے ہوئے چند برس پہلے کہا تھا کہ اگر اس بڑی دریافت کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تو اس کی قیمت لگائیں، ایک ڈالر ایک اینٹ کے حساب سے ہم خرید کرتے ہیں۔

مقامی صحافی عبدالحق پیرزادو کا کہنا ہے نوے کے عشرے میں جاپانی حکومت نے تجویز دی تھی کہ دس برس تک یہ سائٹ ان کے حوالے کی جائے، وہ اس سائٹ کو شیشے سے ڈھانپ دیں گے اس سے یہ آثار بارشوں، سورج کی تپش اور ہوا وغیرہ سے محفوظ رہ سکیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستان حکومت نے جاپان کی تجویز کو قبول کرنے کے بجائے فرمائش کی کہ یہ رقم اس کے حوالے کی جائے۔

وقفے وقفے سے موئن جو دڑو کا دورہ کرنے والے ماہرین کا کہنا ہے ہر بار انہیں زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ شہر کے نچلے علاقے میں عمارتوں اور گھروں کے نشانات زیادہ واضح ہیں۔ متوسط اور نچلے طبقے کے لوگوں کی دیواریں جھک گئی ہیں اور گر رہی ہیں۔ زیر زمین آبی نمکیات اینٹوں کو کھا رہی ہیں۔ جو کھدائی سے پہلے مضبوط اور صحٰح سلامت تھیں۔ ان دیواروں کو لکڑی کے پشتوں کے ذریعے کھڑا کیا گیا ہے۔ جو کہ زیادہ دن تک نہیں چل سکتے۔شہر کے اوپر کے حصے میں دیواریں گر چکی ہیں دوسری گرنے کے دہانے ہیں۔

زیرزمین پانی اور اس میں شامل نمکیات کے علاوہ بارشیں بھی دیواروں کو زبردست نقصان پہنچا رہی ہیں جو صرف اوپر کی سطح پراثرانداز ہوتی اس کے علاوہ بارش کا پانی کھڑا بھی ہو جاتا ہے۔ ان آثارکی گزشتہ دو سال میں سالانہ مرمت بھی نہیں ہوئی۔ لے دے کر چند ملازمین اس کی جھاڑو لگا کر صفائی کرتے ہیں اس کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا جارہا ہے۔

تعجب کی بات ہے کہ موئن جو دڑو کی کوئی ویب سائٹ نہیں۔ اس سے بھی زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ یہاں نہ انٹرنیٹ کی سہولت ہے اور نہ ہی ٹیلیفون کی۔ حد تو یہ ہے موئن جو دڑو کے میوزیم اور اس کی حفاظت کے لیے قائم آفیس میں بھی فون کی سہولت نہیں۔ یونیسکو کے ماہرین کی بھی یہی رائے ہے کہ دیواریں اور اینٹیں گل سڑ رہی ہیں۔ لہٰذا اس ورثے کو بچانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔

ماہر آثار قدیمہ عاصمہ ابراہیم مایوس ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کسی بھی محکمے کے پاس نہ مہارت ہے اور نہ ہی جذبہ ۔ جس تیزی سے چیزیں خراب ہو رہی ہیں اسکو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ یہ بمشکل اگلے بیس سال تک قائم رہ سکے۔ اب حکام کے پاس دو ہی آپشن ہیں۔ ایک یہ کہ اسکو تباہ ہوتے ہوئے دیکھیں، یا پھر اس کو ڈاکومنٹ کرکے واپس زمین میں دفن کردیں۔ جب تک اس کو محفوظ کرنے کے اقدامات اور وسائل نہیں کئے جاتے۔

کیا اس پس منظر میں بلاول بھٹو کا یہ قدم موئن جو دڑو کو بچا سکتا ہے؟

Labels: , , , ,